پلازما انسانی خون کا وہ حصہ ہوتا ہے جس میں سرخ خلیے نکال دئیے جاتے ہیں اور بقیہ سفید خلیے اور کیمیاوی مادے موجود رہتے ہیں پلازما خون کا ایک شفاف حصہ ہوتا ہے جو خونی خلیے کو علیحدہ کرنے پر حاصل ہوتا ہے پلازما میں اینٹی باڈیز اور دیگر پروٹین شامل ہوتے ہیں اینٹی باڈیز کے حامل پلازما سے مریض کو مرض سے لڑنے کیلئے مدافعت فراہم ہوتی ہے اس عمل کیلئے ایک وسیع کتھیرٹر ٹیوب کو جسم سے منسلک کیا جاتا ہے جسے ڈبل لومین لائن پکارا جاتا ہے اس عمل کو کئی گھنٹوں کا وقت درکار ہوتا ہے عطیہ دینے والے شخص کے جسم سے افیئرس نامی عمل سے تقریبا 400 ملی لیٹر پلازما حاصل کیا جاتا ہے عطیہ شدہ خون سے پلازما الگ کر کے خون کے سرخ خلیے عطیہ کرنے والے جسم کو لوٹا دئیے جاتے ہیں دنیا بھر میں کرونا وباء کے خطرناک حد تک پھیلاو اور اس کے سامنے کوئی بھی طریقہِ علاج گارگر ثابت نہ ہونے پر سیٹارائیڈ اینٹی وائرس و اینٹی ملیریا ادویات کے بعد ماہرین طب و سائنیسدانوں نے پلازما تھراپی کے کلینکل ٹرائلز شروع کر دئیے ہیں پلازما تھراپی طریقہ علاج 1980 سے وجود رکھتا ہے اور یہ طریقہِ علاج خسرے۔کن پیڑوں اور پولیو کے علاج کیلئے کامیابی سے استعمال میں لایا جا چکا ہے عالمی ادارہ صحت کےقوانین کے مطابق اس طریقہ علاج سے قبل کسی بھی ملک میں صحت کے اعلی ادارے خوراک و ادویات کی اتھارٹی سے اجازت درکار ہوتی ہے امریکہ چین کوریا و دیگر ممالک اپنی قومی ہیلتھ اتھارٹیز سے اجازت لینے کے بعد کلینکل ٹرائلز شروع کر چکے ہیں اور اس طریقہِ علاج سے کافی حد تک کرونا وائرس سے متاثرہ مریض صحت یاب ہو رہے ہیں۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان نے بھی وزارت صحت حکومتِ پاکستان کی سفارش پر غوروفکر کے بعد کرونا وباء سے نمٹنے کیلئے پلازماتھراپی کے کلینکل ٹرائلز کی اجازت دی ہے ساتھ ہی 50 سے زائد کمپنیز کو عالمی ادارہ صحت کے فارمولہ کے مطابق ہینڈ سیناٹائزر بنانے کی اجازت دی ہے جبکہ ملکی سطح پر وینٹی لیٹر تیار کر کے پاکستان انجئیرنگ کونسل کی مبظوری کے بعد کلینیکل استعمال کی اجازت ہو گی ڈرگ ریگولیڑی اتھارٹی جو ملک پاکستان میں ادویات و خوراک کے معیار پر چیک اینڈ بیلنس رکھتی ہے اس کا ایک اچھا اقدام ہے جو کرونا وائرس کے مریضوں کے علاج معالجہ کیلئے بہتر ثابت ہو گا۔
پاکستان میں پلازما تھراپی کے استعمال کی ٹیکنالوجی وجود تو رکھتی ہے لیکن صرف محدود جگہوں پر ہی دستیاب ہے اس لیئے پورے ملک میں وسیع پیمانے پر شاید ممکن نہ ہو سکے اس طریقہِ علاج میں خصوصی طور پر احتیاط کی ضرورت ہو گی کیونکہ یہ طریقہ علاج بھی سائیڈ افیکٹس سے خالی نہیں الرجی تھکاوٹ چکر قے آنا رے ایکشن اگرچہ عام سائیڈ افیکٹس ہیں جو ایک بار عمل رک جانے پر ختم ہو جاتے ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ پلازما عطیہ کرنے والے افراد کو اس سے آگاہی ہو تنفس اور دل کے مریضوں کو دیگر مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے جس کی وجہ سے ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔
پلازما عطیہ کرنے والے افراد کے دیگر امراض کے کلینیکل ٹیسٹ بھی ضروری ہیں تاکہ ان کے جسم میں موجود دیگر امراض کی نشاندہی بھی ہو یہ نہ ہو کہ وہ اگلے مریض کو کرونا سے بچانے کے لیئے پلازما عطیہ کے ساتھ اپنے جسم میں موجود بیماری بھی منتقل کر دیں اس لیئے ضروری ہے کہ تربیت یافتہ عملہ اور ماہرینِ طب کی نگرانی میں صرف ان مریضوں پر پلازما تھراپی کے کلینیکل ٹرائل کیے جائیں جن پر کسی قسم کی ادویات کام نہ کر رہی ہوں اور مریض صحت یاب نہ ہو رہے ہوں کیونکہ جب تک کرونا وائرس کی ویکسین دریافت نہیں ہوتی پلازما تھراپی ہی وہ آخری طریقہ علاج ہے جس کے ذریعے مریض کے جسم میں اینٹی باڈیز داخل کر کے وائرس پر قابو پا کر مریض کی جان بچائی جا سکتی ہے۔