ان کی شخصیت بڑی دلچسپ اور پروقار تھی، اتنی دلچسپ کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں۔ سچ پوچھیں تو انکی زندگی ہشت پہلو تھی، اگر شاعرانہ مبالغہ سے کام لیا جائے تو شاید انکی زندگی کی خوبیوں کا احاطہ کیا جا سکے ورنہ عام قاری یہی سمجھے گا کہ ایسی خوبیاں تو فرشتوں میں ہوتی ہیں یا نبیوں اور پیغمبروں میں انکی جھلک نظر آتی ہے اور انکی انہی خوبیوں کے پیش نظر لوگ کہتے تھے، کہ اگر خدا پیمبری کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دے تو انکو پیغمبری ضرور ملیگی۔ میں یہاں یہ ضرور کہوں گا کہ ایسا ہونا ناممکن ہے مگر یہ جملہ اور یہ رائے انکے کردار کے ان پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے جو سورج کی طرح چمک رہے ہیں۔ انکی کونسی ایسی خوبی ہے جس پر قلم اٹھایا جائے اور صفحے نہ کالے ہو جائیں، وہ تو قوس قزح کے مانند تھیں، جاندار اور خوبصورت رنگوں سے بھرپور،یا ایسا سایہ دار درخت تھیں جس کی چھائوں میں ایک دنیا نے ٹھنڈی ہواؤں کے مزے لوٹے، وہ تواس برف کے اجلے پن کی علامت بن گئیں تھیں، جو نئی نئی گری ہو، ملائم اور صاف شفاف۔
انہوں نے زندگی کے ہر موڑ پر اپنے ہیٹ میں نئے پر لگائے وہ خدمت گزار بیٹی تھیں، ذمہ دار بہن اور وفا شعار بیوی، زندگی کا کونسا ایسا رشتہ تھا جس کو انہوں نے معراج تک نہیں پہنچایا، اور ماں ایسی کہ انکے بچے انکو ان ماؤں سے ملاتے جن کی مثالیں قرون وسطیٰ کی ماؤں کے حوالوں سے دی جاتی ہیں۔
یہ افسانہ انکی تمام خوبیوں کا احاطہ نہیں کر سکتا، انکی زندگی کی اچھائیاں تو ایک ایسی ڈور کیطرح ہیں جس کا ایک سرا تو ہاتھ میں آ گیا ہے مگر دوسرا ڈور کی طوالت کے سبب ہاتھ نہیں آتا۔ صرف چند ایک واقعات کیطرف اشارہ کیا ہے جن سے انکے کردار کی پرتیں کھلتی ہیں، واقعات تو ہزاروں ہیں اور لکھنے بیٹھوں تو آندھ آ جائے اور ختم نہ ہوں، چند ایک پر اکتفا کرتا ہوں اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ بھی انکے کردار کی پوری غمازی نہیں کرتے تاہم انکی زندگی کے بارے میں اندازہ لگانے میں بڑے معاون مددگار ثابت ہونگے۔ انکی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو، انکا ہنس مکھ، بزلہ سنج اور حاضر جواب ہونا تھا، وہ عجیب باغ و بہار شخصیت کی مالکہ تھیں، محفل میں بیٹھتیں تو سب کو اپنا گرویدہ بنا لیتی تھیں۔ انکی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی انکی خطوں سے بھی ظاہر ہوتی تھی۔ لیجئے اسی سلسلے کا ایک واقعہ یاد آ گیا جو انکی مندرجہ بالا خوبیوں کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
یہ قدرے پرانی بات ہے اور ان دنوں کی ہے جب میں سعودی عرب میں ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھا، خط لکھنے کا میں ہمیشہ سے چور رہا ہوں کئی بار ایسا ہوا کہ میرے بہت اچھے دوست میری اس عادت سے نالاں رہے اور دوستی تک چھوڑنے کیلئے تیار ہو گئے، مگر کیا کروں، یہ عادت میری گھٹی میں پڑی ہے۔ بس خط نہیں لکھتا، اماں بھی میری اس عادت سے تنگ تھیں، میرے اور انکے درمیان خطوں کی ٹریفک یکطرفہ چل رہی تھی، وہی مجھے خط لکھتیں۔ میں برسوں کی برسات میں لکھ دیتا تو انکی عید ہو جاتی۔ وہ ہمیشہ گلہ کرتیں کہ ” بیٹا، آخر تم خط کیوں نہیں لکھتے” اور جب انکا اصرار بڑھا تو میں ایک دفعہ لکھ دیا۔ ” میں تو آپکو خط لکھتا ہوں مگر کیا کروں سعودی عرب کا ڈاک نظام خراب ہے، خط راستے میں کھو جاتے ہیں اور آپکو نہیں ملتے”۔
letter writing
اسی دوران میری بیوی بچے کی پیدائش کے سلسلے میں پاکستان گئی، ایک تو سعودی عرب کی تنہائی اور پھر سونے پر سہاگہ یہ بات کہ میری شادی حال ہی میں ہوئی تھی، میں تنہائی سے گھبرا گیا اور بیوی کو اوپر تلے کئی خط لکھ ڈالے چونکہ میری بیوی میری اماں کیساتھ رہ رہی تھی اس لیے انہوں نے ان تمام خطوط کو دیکھا جو میں نے اپنی بیوی کو لکھے تھے۔ انکی رگ ظرافت پھڑک اٹھی اور انہوں نے مجھے فوراً خط لکھا، خط کیا تھا، سنہری حرفوں میں سجانے والی ایک تحریر تھی، لکھا تھا۔ ” بیٹا تمہاری بیوی آجکل یہاں میرے پاس ہے یوں تو مجھے ہو کے یہاں ہونے کی جو خوشی ہے اسکو تو میں بیان نہیں کر سکتی، اور نہ اسکو میں یہاں تحریر کر رہی ہوں۔ میں تو اپنی ایکدوسری خوشی کا اظہار کر رہی ہوں اور وہ یہ کہ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ میری بہو کے یہاں آنے سے سعودی عرب کی ڈاک کا نظام ٹھیک ہو گیا۔ ”کچھ باتیں ایسی ہیں کہ جن کا ذکر کیا جائے تو لوگ کہیں گے۔ ” بھلا، ایسی باتیں لکھنے کی کیا ضرورت تھی، ایسا تو ہر بیٹا ماں کیلئے سوچتا ہے۔” لیکن یہاں ایک ضروری بات کہتا چلوں، یہ باتیں میں بیٹے کے ناطے نہیں لکھ رہا، ان میں جذبات کا بالکل دخل نہیں، یہ تو عین مین حقیقتیں ہیں۔ بالکل اسی طرح جسطرح آپ کی یا میری پیدائش۔
ماں کے رشتے سے وہ عظیم تھیں، عظیم تر تھیں، مجھے اندازہ ہے کہ بچوں کو اپنے آپ سے جدا کرنا کس قدر مشکل کام ہے، میرے بیٹے نوکریوں کے سلسلے میں اور میری بیٹیاں شادی کیوجہ سے اب مجھ سے دور ہیں اور یہ میرا خدا ہی جانتا ہے کہ انکی جدائی اور دوری کسطرح میرے دل کو آرے کی طرح کاٹتی ہے بعض اوقات دل چاہتا ہے کہ وہ سب سامنے ہوں اور میں خوب خوب پیار کروں مگر ایسا ممکن نہیں میری یاد یا انکے لیے میری بیوی کی محبت انکو میرے پاس نہیں لا سکتی، میں دل مسوس کر رہ جاتا ہوں اور سوچتا ہوں تو لرز اٹھتا ہوں کہ میری تو گنتی کی اولادیں ہیں انکے ایک نہیں دو نہیں 9 بچے تھے دو ایک کو چھوڑ کر سب ہی ان سے دور تھے اور اللہ اللہ کیا جگرا تھا انکا کہ سب کی دوری کو ہنی خوی برداشت کرتی رہیں اور ایک ہم ہیں کہ گنے چنوں کی دوری میں ہی ہتھیار ڈال دیے۔
namaz
میرے ذہن میں قلم ہی چل رہی ہے انکی زندگی کے مختلف واقعات یکے بعد دیگرے مجھے یاد آ رہے ہیں میں سوچ رہا ہوں کہ بہ نظر غائر دیکھا جائے تو وہ اور میرے ابا دونوں ہی زندگی سے چو مکھی لڑتے رہے آمدنی کم کنبہ بڑا اور اسکے فطری اثرات یہ نکلتے ہیں کہ بچے رل جاتے ہیں نہ انکی تعلیم صحیح ہوتی ہے اور نہ تربیت مگر کیا مجال جو انکے سگھڑاپے نے ہم بچوں کو ایک دن بھی یہ محسوس ہونے دیا ہو کہ ہمارے ابا کی آمدنی کم ہے اور ہماری اماں کس کس جتن سے ہم کو پال رہی ہیں۔ ہمارے وہی لیل و نہار تھے جو کھاتے پیتے گھرانوں کے بچوں کے ہوتے ہیں، اچھا کھاتے، اچھا پہنتے، اسوقت کے حساب سے اچھے اسکولوں میں جاتے اور حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ابا ولی صفت آدمی تھے” قال اللہ اور قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ” پر آخری وقت تک عمل کرتے رہے۔ اماں کے ہاتھ میں خرچ کے پیسے دینے کیبعد انکی واحد مصروفیت عبادت تھی، وہ اسی میں مشغول رہتے، ہماری اماں پر دوگنی نہیں بلکہ ہزار گنا ذمہ داریاں عائد ہو گئیں۔ گھر کی دیکھ بھال کیساتھ بچوں کو بھی نکھ سے سکھ رکھتیں اور یہ انکا سگھڑاپا ہی تھا کہ محلے والے ہم کو خاصہ آسودہ حال سمجھتے بقول شاعر کے ” بات ابھی تک بنی ہوئی ہے ”
آمد برسر مطلب جوانی میں مالی آسودگی نصیب نہیں ہوئی زندگی سے جہاد ہی کرتی رہیں اور جب بچے بڑے ہوئے اس لائق ہوئے کہ ماں باپ کی خدمت کریں تو مالی آسودگی تو بے شک نصیب ہو گئی مگر وہ پلنگ سے ایسی لگیں کہ آخری وقت تک اسکا ساتھ نہیں چھڑا۔ بیمار تو سب ہی ہوتے ہیں مگر وہ ایسی بیمار ہوئیں کہ کئی برس ایک ہی پلنگ پر گزار دیے ہلنے جلنے کی حد تک رہ گئیں۔ کونسی بیماری تھی جو انکو نہیں لگی مگر واری جائیں انکی طبیعت کے کہ اپنی شگفتگی اور بذلہ سنجی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، ڈاکٹر آئے دن انکو دیکھنے آتا انکا معائنہ کرتا، دوائیں لکھتا مگر گھڑی دو گھڑی ان سے باتیں ضرور کرتا، آتا تو ان کو دیکھنے تھا مگر انکی باتیں اسقدر دلچسپ ہوتیں کہ وقت کا خیال ہی نہ کرتا۔ ایک دن اس نے بہت ساری باتیں کیں ۔ ان سے پوچھا میں جو دوائیں آپ کو لکھتا ہوں وہ آپ کھاتی بھی ہیں یا نہیں؟ انکی حاضر جواب نے جوش مارا اور مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ کچھ نہ پوچھیں ڈاکٹر صاحب، آپ نے تو مختلف قسم کی اسقدر دوائیاں کھلا دی ہیں کہ اب تو ایسا لگتا ہے کہ میرا پیٹ تو اب ان دوائیوں کی فیکٹری بن گیا ہے۔
اللہ اللہ کیا ہمت تھی، کیا حوصلہ تھا ہم تو نہ اپنے میں وہ ہمت پیدا کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہ حوصلہ لا سکتے ہیں، ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہر چند کہ مالی طور پر آسودہ ہیں، جمع جکڑی اتنی ہے کہ اگر آمدنی کا ذریعہ نہ بھی رہے تو برسوں گھر بیٹھ کر کھا سکتے ہیں مگر کیفیت یہ ہے کہ اگر Boss قدرے اونچی آواز سے بھی بولے تو رات بھر نیند نہیں آتی یہی سوچتے رہتے ہیں کہ Boss ناراض ہو گیا، اب کیا ہو گا مگر آفرین ہے ان پر کہ کیسے کیسے نامساعد حالات سے دوچار ہوئیں۔ زمانے نے پٹخ پٹخ دیا مگر مینارہ نور بنی کھڑی رہیں۔ ذرا سوچئے کہ ایک آدمی کمانے والا اور گیارہ آدمی کھانے والے اور آمدنی بھی ایسی کہ روز کنواں کھودئے اور روز پانی پیجئے مگر کیا مجال جو تیوری پر ذرا بھی بل آ جائیں۔ خدا کی ذات پر اسقدر بھروسہ کہ ہمیشہ اس بات کا یقین کہ آنیوالا کل آج سے بہتر ہو گا اور یہ وہی تو کل تھا جس سے انکے چہرے پر ایک دائمی مسکراہٹ بکھیر رکھی تھی، یہ وہی مسکراہٹ تھی جو انکی زندگی کا خاصہ ہی نہیں بنی بلکہ انکی پہچان بھی بنی۔
bed in the room
یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ بہت بیمار ہو گئیں، پہلے انکو سہارا دیکر پلنگ پر بٹھایا جاتا تھا اب وہ اس سے بھی گئیں۔ انکی بڑی بیٹی انکی بہت خدمت کرتی تھی۔ سچ پوچھیں تو اس نے بیٹی ہونے کا حق ادا کر دیا۔ انکو کون سا ایسا کام تھا جو اس نے نہیں کیا۔ اب تو کیفیت یہ ہو گئی تھی کہ انکا ہر کام پلنگ پر انکی یہی بیٹی کرتی۔ بیٹی نے ماں کی اسقدر خدمت کی کہ بقول لوگوں کے اس نے تو خدمت گزاری کی ایک تاریخ رقم کی ہے۔ انکا کون سا ایسا کام تھا جو انکی بیٹی سرانجام نہ دیتی ہو اور حد تو یہ ہے کہ اس نے اپنی زندگی کا مقصد انکی خدمت بنا لیا تھا۔ اس کی خود کی زندگی بالکل بے معنی سی ہو کر رہ گئی تھی اور انتہا تو یہ ہے کہ اس نے اب گھر سے نکلنا بند کر دیا تھا۔ اس لیے کہ وہ اب اپنی اس بیٹی کی اسقدر عادی ہو گئی تھیں کہ ایک منٹ بھی وہ ادھر ادھر ہو جاتی تو انکو یہ محسوس ہوتا جیسے یہ انکا آخری وقت ہے۔ دوئم خود انکی بیٹی کو یہ احساس تھا کہ مبادا وہ کبھی باہر چلی جائے اور عدم موجودگی میں انکو کسی کام کی ضرورت ہوئی تو پھر ماں کو کس قدر تکلیف ہو گی۔ ایک طرح سے تو انکی بیٹی نے اپنے لیے جینا ہی ختم کر دیا تھا وہ تو جیتی ہی انکی خدمت کیلئے تھی اس کی بے لوث خدمت کی تھی اور جب خود کو خدمت کی ضرورت پیش آئی تو خدائے عظیم نے ان کی بیٹی کے دل میں خدمت کا جذبہ پیدا کر دیا۔ ” وہ مخدوم ہوگا ، کرے گا جو خدمت”
یہ تو ایک ایسی سیڑھی تھی جس کا پہلا قدم وہ خود تھیں اور دوسرا قدم انکی بیٹی، لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ انکی بیٹی نے ان کی امانت میں نیت باندھی اور امام سے آگے نکل گئی۔
آمدم برسر مطلب، وہ بیمار ہوئیں اور ایسی بیمار ہوئیں کہ پلنگ سے لگ گئیں۔ تمام وقت انکا پلنگ پر گزرتا اور اسی کیفیت میں ایک دن گھر والوں کو احساس ہوا کہ انکا پلنگ قدرے بے آرام ہو گیا ہے۔ وہ بچپنے ہی سے بان کی چارپائی کی عادی تھیں، کو آجکل کے زمانے میں ایک سے ایک اعلیٰ مسہری اور ایک سے ایک اعلیٰ پلنگ دستیاب تھا مگر ان کو راحت بان کے پلنگ پر ہی ملتی تھی۔ دو ایک بار ایسا ہوا کہ انکے کسی لڑکے نے انکے لیے ایک اچھی مسہری یا نواز کے پلنگ کا بندوبست کیا مگر انہوں نے اپنی وہی فرمائش دہرائی۔ ” میرے لیے تو بان کا پلنگ ہی اچھا ہے ، مجھے کسی اور دوسری مسہری پر مزا نہیں آتا۔’
اور اسی کے پیش نظر سب نے محسوس کیا کہ اب انکا پلنگ قدرے جھلنگا ہوتا جا رہا ہے اسکی ادوائن کسی گئی مگر زیادہ فرق نہ پڑا، انکی بیٹی یعنی میری بہن نے بھی یہ محسوس کی اور مجھ سے کہا۔” انکے لیے ایک نیا پلنگ لے آئو یہ پلنگ اب بے آرام ہو گیا ہے۔” میں نے حامی بھر لی اور کہا۔ ”میں کل صبح ہی انکے لیے نیا پلنگ خرید لوں گا۔” میری بہن نے دہرانے کے سے انداز میں پھر کہا۔ ہاں بھولنا نہیں، کل نیا پلنگ ضرور لے آنا اور چونکہ رات زیادہ ہو گئی تھی اس لیے سب سونے کیلئے چلے گئے۔
ادھر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ رات دیر گئے انکی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تھی اور ایسی خراب ہوئی کہ لینے کے دینے پڑ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہاتھوں میں آ گئیں، فوراً ڈاکٹر کو بلوایا گیا اور انتظام ہوا کہ انکو ہسپتال لے جایا جائے مگر تمام انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے اور وہ چپ چاپ اس دنیا سے سدھار گئیں۔ سب سکتے میں آ گئے۔ یہ ایک ایسا ذہنی صدمہ تھا جس کے لیے کوئی بھی تیار نہ تھا۔ وہ بیمار ضرور تھیں مگر کسی کے دل میں یہ خیال نہ تھا کہ اب انکا چل چلائو کا وقت ہے اور اسطرح انکی زندگی کا ایک عظیم الشان باب تمام ہوا۔
دوسرے دن صبح ہی صبح انکی تدفین کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ انکا جنازہ بڑے کمرے میں رکھا گیا ،پورا گھر سوگوار تھا کسی کو یقین نہ تھا کہ ایسا ہو جائے گا کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے سب کو اکیلا چھوڑ کر اسطرح آنکھیں موند لیں گی، مگر موت دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ سب کو بے یقینی کے باوجود یقین تھا کہ انہوں نے ہمیشہ کیلئے آنکھیں بند کر لی ہیں۔ اب انکی تدفین کی آخری تیاریاں تھیں۔ میں اپنے دیگر بھائیوں کیساتھ محلے کی مسجد گیا تاکہ وہ پلنگ لے آؤں جس پر انکا جنازہ انکی آخری منزل تک لے جایا جائے اور اسکے بعد تدفین کے باقی مراحل طے ہوں۔
janaza
میں مسجد سے پلنگ لے کر گھر آیا تو زنانے سے بڑی بہن نے ہم سب کو دیکھا اور اس پلنگ کو بھی جو میرے پیچھے پیچھے لوگ لا رہے تھے۔ بہن نے بہت غور سے پلنگ کو دیکھا، خیالات کا ایک ہجوم اسکے ذہن میں گھوم گیا۔ اس نے قدرے سوچا اور بہت دھیمے دھیمے اور رندھے رندھے لہجے میں جو اریب قریب کی دوسری عورتوں نے بھی سنا، کہا۔ ” میں نے تو انکے آرام کیلئے باقاعدہ نئے پلنگ کی فرمائش کی تھی میرے بھائی، تم یہ کونسا پلنگ لے آئے؟”