تاریخ بتاتی ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور حکومت22لاکھ مربع میل کے وسیع و عریض علاقے پر مشتمل تھا،جس میں کچھ ایسے علاقے بھی شامل تھے جن کے مکمل حالات جاننے میں آپ کو کافی دشواری پیش آتی تھی، چنانچہ آپ تمام صوبوں کی جانب قاصد روانہ کرکے وہاں کے حالات معلوم کرتے رہتے تھے،سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو اِس بات کا اتنا احساس تھا کہ ان کی رعایا میں ایک چھوٹی سی بستی بھی ایسی نہ رہ جائے جہاں عدل و انصاف مہیا نہ کرسکیں، مبادا کوئی قوم ظلم و جبر کی چکی کے نیچے پستی رہے اور عمر اس سے بے خبر ہو، طبری کے بیان کردہ ایک واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کے آخری سالوں میں آپ کا یہ احساس اتنا شدید ہوگیا تھا کہ آپ نے پورے ملک کے سرکاری دورے کا وسیع پروگرام بھی بنایا،مگر شہادت نے اِس پروگرام پر عمل پیرا نہ ہونے دیا،سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ اپنے ماتحت حکام کو بھی لوگوں کی ضروریات کا احساس دلاتے رہتے تھے،ایک مرتبہ بصر ہ کے گورنر حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کو فرمایا لوگوں کے گھروں میں ان کی فراخی کا سامان پیدا کرواور ان کے متعلقین کو راحت دینے کا انتظام کرو۔قحط کے دنوں میں فیصلہ کیا کہ اس وقت تک گوشت اور گھی کو ہاتھ نہ لگائیں گے جب تک لوگ قحط میں مبتلا ہیں،چنانچہ آپ نے کثرت سے فاقے کرنے شروع کردیئے، یہاں تک کہ لوگوں نے آپ کی حالت دیکھ کرکہنا شروع کردیا کہاگر اللہ عام الرمادہ کا قحط دور نہ فرماتا تو ہمارا خیال تھا کہ حضرت عمر مسلمانوں کے غم میں جان دے دیتے۔آپ خودفرمایا کرتے تھے مجھے لوگوں کی تکلیف کا احساس کیونکر پیدا ہوسکتا ہے جب تک کہ میں خود ان کی مصیبت میں شریک نہ ہوں۔ہماری اسلامی تاریخ میں خلفائے راشدین اوربہت سے فرماروائے سلطنت کے دور رعایا پروری کی ایسی بے شمار مثالوں سے مزین ہیں۔ مگر افسوس کہ آج کے دور میں خلفائے راشدین اور دیگر مسلم حکمرانوں کے عہد خوش جمال کے صرف خواب ہی دیکھے جا سکتے ہیں،اس دور کے یہ واقعات بیان تو کیے جاسکتے ہیں لیکن ہمارے صاحبان اقتدار کے نزدیک قابل عمل اور قابل اقتدانہیں ہیں،کیونکہ عوام کے ووٹوں سے مسند اقتدار تک رسائی حاصل کرنے والوں کے نزدیک اِن واقعات کی کوئی حیثیت واہمیت نہیں،لہذا ان سے اِس کی توقع کار عبث ہے،کاش ایسا ہوتا تخت و تاج والوں کو عوام کے دکھ درد کی خبر ہوتی، انہیں معلوم ہوتا کہ مہنگائی کے عفریت نے کیا اودھم مچا رکھا ہے،یومیہ اجرت اور کم آمدنی والے افراد کس زبوں حالی کا شکار ہیں،کاش وہ جانتے کہ مارکیٹ میں آٹے دال کا بھا کیا ہے،گیس،بجلی، پٹرول، مٹی کے تیل اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھا دینے سے عام آدمی کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں،اگر مہنگائی،غربت اور بے روزگاری جیسے عذابوں یہ آگاہ ہوتے تو آج عوام کی یہ حالت زار نہ ہوتی،اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک کا ہر ادارہ تباہی و بربادی کا شکار ہے،اس کے باوجود صدر محترم کمال سادگی سے فرماتے ہیں کہ ادارے کمزور ہوئے ہیں تباہ تو نہیں ہوئے،وزیر اعظم صاحب دعوی کرتے ہیں کہ ملک میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام ان کے دور میں ہورہے ہیں اور پورے ملک میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھا دیا گیا ہے،اپنی اِس بے مثال کارکردگی جس نے غریب عوام سے روٹی کپڑا اور مکان کی چھت تک چھین لی ہے،کی بنیاد پر صدر صاحب فرماتے ہیں کہ وہ آئندہ الیکشن بھی اِسی نعرے پر جیتیں گے،جبکہ وزیر اعظم صاحب اِس عزم کا اظہار کرتے ہیں وہ سیاسی یتیموں اور ٹسٹ ٹیوب بے بیز کے شور شرابے پر ایوان اقتدار سے رخصت نہیں ہوں گے،کسی کو صدر یا میری شکل پسند نہیں تو مواخذے کا شوق پورا کرلے یا تحریک عدم اعتمادلے آئے،مگرملک میں سیاسی تبدیلی کیلئے کوئی غیر آئینی اقدام ہر گز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر مملکت اور محترم وزیر اعظم صاحب کے اِن تمام دعووں کے برعکس ملک کی حقیقی صورت حال بے حد تشویشناک ہے،زمینی حقائق کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت عوامی توقعات پوری کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے،اِس کے باوجود وزیراعظم صاحب فرماتے ہیں کہ ان کی حکومت نے شہید بینظیر بھٹو کے منشور جس میں عوام کو روٹی کپڑے اور مکان کی ضمانت دی گئی تھی،پر کافی حد تک عمل کر دیا ہے،جبکہ عام آدمی آج اِن تینوں سہولتوں کیلئے مارا مارا پھر رہا ہے،بین الاقوامی سروے رپورٹوں کے مطابق جب سابق آمر پرویز مشرف نے اقتدار چھوڑا تو ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد چار کروڑ سے کم تھی،آج انہی رپورٹوں کے مطابق اِن لوگوں کی تعداد جن کے گھروں میں صرف ایک وقت کھاناپکتا ہے، سات کروڑ سے اوپر نکل گئی ہے جو موجودہ حکومت کی طرف سے غریبوں کی دل لگا کر خدمت کرنے کا منہ بولتا ثبوت ہے،کرپشن،مہنگائی،بے روزگاری اوربجلی کے بحران تو ایک طرف، اب تو گیس کی کمی کی وجہ سے کروڑوں گھروں کے چولہے بھی ٹھنڈے ہورہے ہیں،پنجاب اور سرحد کے بعد اب سندھ اور بلوچستان بھی گیس کی کمیابی کا شکار ہے،حقیقت یہ ہے کہ بجلی کے سالوں پرانے بحران کے بعد گیس کی عدم دستیابی نے صنعتوں کو مکمل تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے،دوسری طرف عوام کے زخموں پر مزید نمک پاشی بجلی، گیس،سی این جی،ایل پی جی اور پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی صورت میں کی جارہی ہے،حال یہ ہے کہ ہر طرف قیامت کا شورہے ، اِک حشر برپا ہے،مگر اِس کے باوجود صدر محترم اور وزیر اعظم صاحب ملک کو درپیش سنگین مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اپنی حکومتی کارکردگی کے لایعنی دعوئے کررہے ہیں،عجب طرفہ تماشا ہے کہ ایک طرف ارباب اقتدار کہتے ہیں کہ وہ کسی کی تنقید سے جانے والے نہیں،کیونکہ ان کے ساتھ 18 کروڑ عوام ہیں،لیکن اس 18کروڑ عوام کی اکثریت کی حالت یہ ہے کہ اس کے پاس کھانے کو روٹی،پہنے کو کپڑااور سر چھپانے کو چھت تک نہیں ہے ،بے روزگاری،بھوک، غربت اورافلاس نے لوگوں کو خودسوزی،خودکشی اور اپنے بچوں کے قتل تک پرمجبورکردیا ہے،مگر ججوں کی بحالی کیلئے نہیں بلکہ عوام سے روٹی، کپڑا اور مکان کیلئے ووٹ حاصل کرنے کے دعویدار غریبوں کی جماعت اور حکومت کے صدر کو ان کی کوئی فکر نہیں ہے۔ عجیب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میںلگا کے زخم نمک سے مساج کرتے ہیںغریب شہر ترستا ہے اک نوالے کوامیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں صد افسوس کہ یہاں تو دور دور تک عوام کے ساتھ شرکت غم کے بھی کوئی آثار نظر تک نہیں آتے،عوام دانے دانے کو ترس رہے ہیں اور ارباب اقتدار کا حال یہ ہے کہ ان کے شاہانہ اخراجات دیکھ کر گمان ہوتاہے کہ شاید یہ پاکستان جیسے غریب ملک کے حکمران نہیں بلکہ کسی ایسے ملک کے حکمران ہیں جہاں کے عوام اِس قدر آسودہ اور خوشحال ہیں کہ انہیں اِس سے غرض ہی نہیں کہ ہمارے حکمران سیاستدان اور بیورو کریٹ قومی خزانے سے کتنا کچھ خرچ کر رہے ہیں،ایک طرف عوام بدحالی اوربے روزگاری سے دوچار ہیں تو دوسری طرف ہمارے حکمرانوں کے شاہانہ اخراجات ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں،وہ عالی شان محلوں،کروڑوں روپے کی بلٹ پروف گاڑیوں دولت کی ریل پیل اور اربوں کے اخراجات سے غیر ملکی دورے کرنے میں امریکہ برطانیہ جرمنی جاپان آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے ملکوں کے لیڈروں پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں مصروف ہیں،ہر طرف کرپشن کا دریا بہہ رہا ہے،ایمنسٹی انٹرنیشنل کہہ رہی ہے کہ گزشتہ برس کم و بیش پانچ سو ارب روپے کرپشن کی نذر ہو ئے،ریاستی کھونٹے سے بندھے،پاکستان اسٹیل،ریلوئے،واپڈا اورپی آئی اے جیسے کوئی درجن بھر سفید ہاتھی ہر سال تین سو ارب روپے ہڑپ کررہے ہیں،لیکن حکومت کو اِ ن کی اصلاح احوال کی کوئی فکر نہیں،اسے رعایا سے کچھ غرض نہیں کہ مفلوک الحال اہل وطن کے سروں پہ کیسی بجلیاں کڑک رہی ہیں،وہ کس قدر سفاک مہنگائی کی صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں،بس بارگاہ اقتدار میں سیاسی گوئیوں اورقوالوں نے ایک ہی راگ،ایک ہی قوالی الاپ رکھی ہے کہ ہم سیاسی نجومیوں کی پیش گوئیوں سے آئے ہیں نہ جائیں گے،ہم نے ملک کے چار بجٹ پیش کئے پانچواں بھی کریں گے،ہم نے محترمہ بینظیر بھٹو کے منشور اور میثاق جمہوریت پر 80فیصدعمل کر دیا ہے،ہمارے خلاف واویلا کرنے والے سیاسی مخالفین کی یہ بھول ہے کہ انتخابات مقررہ وقت سے پہلے ہو جائیں گے،حکومت اپنی مدت اقتدار کے باقی ڈیڑھ سال میں بجلی کی کمی پوری کر دے گی،ہم نے دہشت گردی اور مہنگائی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے،وغیرہ وغیرہ۔ کاش ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! ہمارے ارباب اقتدار کو ملک کے بھوکے ننگے عوام کی فکر ہوتی،عوام کے ووٹوں سے مسند اقتدار تک رسائی حاصل کرنے والے صاحبان اقتدار کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا اورکاش ۔ ۔ ۔ ۔ ! وہ سیدنا عمر فاروق کی طرح غریب عوام کی بے بسی،کرب اور اذیت آمیز شب و روز کی تلخی کو محسوس کرسکتے، مگر اِس دور فسوں کار میں ایسا ممکن نہیں کہ نابینا امیر شہرکو سنائی بھی اونچا دیتا ہے۔ تحریر : محمد احمد ترازی