افغانستان میں بدامنی کی تا ریخ بہت پرانی ہے۔ بدامنی کے ذمہ دار طاقتور بادشاہ اور سپر پاورز ہیں۔ جہنوں نے ہمیشہ افغان قوم کو روندنے کی کوشش کی اور پھر افغانوں سے جان چھڑانا مشکل ہو گیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ایک طرف سپر پاور اور طاقتور اتحادیوں کے جدید ترین عسکری سامان سے لیس افواج اور دوسری طرف دنیا کے کمزور ترین ملک کے غیر تربیت یافتہ مجاہدین۔ پھر بالکل وہی ہوا جو افغانستان کی تاریخ میں اکثر ہوتا آیا۔ اتحا دی افواج نے ہر بم ، ہر حربہ آزمایا ، بین الاقوامی قوانین کو روندا اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کیں۔ ان سب کے باوجودافغانستان میں جیت خواب ہی رہا۔
آخر تھک ہار کر افغا نستان سے انخلاء کیلئے با عزت راستے کی تلاش شروع کی۔ پیرس کانفرنس بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔حالیہ افغانستان کی صورتحال کے بارے میں پیرس میں ہونے والی سہ روزہ کانفرنس کے اختتام پر فریقین نے افغانستان میں جلد امن کی اشد ضرورت پر اتفاق کیا۔ تمام فریقین نے غیر ملکی افواج کے ملک سے نکل جانے پر بھی ایک رہے۔ تاہم اس انخلا کے طریقہ کار اور رفتار پر اختلافات سامنے آئے ۔ طالبان نے مطالبہ کیا ہے کہ غیر ملکی افواج فوراً اور مکمل طور پر افغانستان سے چلی جائیں۔ طالبان نے یہ مو قف اختیار کیا کہ حقیقی امن صرف غیر ملکی افواج کے انخلا سے ہی ہو گا۔
یہ پہلی بار ہے کہ افغان حکومت اور ان کے عسکری حریف طالبان اور سیاسی حریف شمالی اتحاد ایک ہی جگہ بات چیت کے لئے اکٹھے ہوئے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان گروہوں، افغان دھڑوں اور افغان حکام کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ اجلاس کے دوران افغانستان کے آئین میں ترامیم کی ضرورت پر اتفاق کیا گیا تاہم مختلف فریقوں کی جانب سے آنے والے مطالبات پارلیمانی نظام، وفاقی نظام اور وزیراعظم کا عہدہ متعارف کرانے کے بارے میں اختلا فات رہے۔ قطر میں موجود طالبان کے دفتر سے شہاب الدین دلاور اور محمد ندیم وردک نے تنظیم کی نمائندگی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دنیا کو اپنا موقف بتانے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لئے آئے ہیں۔
طالبان نے اپنی ویب سائٹ پر وہ بیان شائع کیا ہے جو ان کے نمائندوں نے کانفرنس کے شرکا کے سامنے پیش کیا۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ حقیقی امن افغانستان پر قبضے کے اختتام کے بعد ہی قائم ہو سکے گا، کوئی بھی طاقت کسی اور طاقت پر قابض نہیں ہو پائے گی، یہ غیر ذمہ دارانہ اور غیر قانونی معاہدوں پر دستخط کرنے سے ممکن نہیں ہو سکے گا۔ امن کی کوششیں مخلص نہیں، امن سب کی مجموعی ذمے داری ہے۔ عملی اقدامات کے ذریعے اسے یقینی بنانا ہو گا کہ جنگ کی جگہ امن کو ترجیح دی جائے، جب تک مجاہدین (طالبان) جیلوں میں ہیں اور ان پر تشدد کیا جا رہا ہے، حقیقی امن ناممکن ہے۔
امریکہ اور دیگر فریقین کو افغان عوام کی مرضی کو تسلیم کرتے ہوئے ملک سے اپنے فوجی واپس بلا لینے چاہئیں، فرانس کی مانند دیگر غیر ملکی حکومتوں کو اپنے عوام کے مفادات کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ افغان آئین کے بارے میں وفد کا موقف تھا کہ آزاد ماحول اور افغان ماہرین کی نگرانی میں نیا آئین تیار کیا جائے۔ موجودہ آئین اس لئے قانونی نہیں کیونکہ یہ قابضوں کے بی باون بمبار طیاروں کے سائے میں تیار کیا گیا ہے۔ انتخابات افغان مسئلے کا حل نہیں کیونکہ آئندہ انتخابات غیر ملکی قبضے کے دوران ہی کرائے جائیں گے۔
Afghanistan Army
ہم اس بات پر اصرار کرتے رہے ہیں کہ ہم اقتدار پر قابض نہیں ہونا چاہتے بلکہ ہم افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت چاہتے ہیں۔ نئے افغانستان کی فوج کے بارے میں طالبان کا موقف تھا کہ ملک کو درپیش مالی مسائل کے پیشِ نظر تمام عوام پر فوج میں خدمات انجام دینا لازم ہونا چاہئے۔ طالبان کے وفد نے کہا کہ سکیورٹی فورسز کو لسانی، علاقائی اور نسلی تعصبات سے پاک ہونا چاہئے، انہیں ملک کے دفاع کے جذبے کے ساتھ تربیت دی جانی چاہئے۔ خواتین کے حقوق کے بارے میں طالبان کہنا تھا کہ ہم اسلام کی روشنی میں ان کے حقوق کی پاسداری پر یقین رکھتے ہیں، انہیں تعلیم اور کام کرنے کے حقوق حاصل ہیں۔
کانفرنس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ بات چیت کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ کانفرنس کے منتظم پیرس میں موجود تھنک ٹینک فاونڈیشن فار سٹرٹیجک ریسرچ تھی۔ اس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ طالبان نے امن عمل میں شامل ہونے کے لئے نئے آئین کی تیاری کو پہلی شرط قرار دیا ۔پیرس کانفرنس اچھی کوشش ہے۔ مگر افغانستان میں امن کی خوا ہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیئے طالبان اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک پاکستان ، چین اور ایران کو بھی ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے۔ورنہ تو افغانستان میں امن شاید خواب ہی رہے۔