پیرس : (عاصم ایاز سے) باوقار سنجیدہ سخن ناپ تول کر بولنا بات کو دلیل سے مثر انداز میں واضح کرنا ہر قدم پے اپنی شخصیت اپنی حیثیت کا خیال رکھنا محتاط مگر برجستہ جواب دینا گفتگو میں اچھی تربیت کا عنصر واضح طور پے دیکھا جا سکتا ہے جی ہاں یہ ہیں پیرس کی معروف سیاسی اور کاروباری دنیا میں بہترین شہرت کے حامل چوہدری شاہین پاکستان کی ایک سیاسی پارٹی کے اہم عہدے پر بھی فائز ہیں۔
چوہدری شاہین پاک پریس کلب کی ایگزیکٹو باڈی کے اہم ممبر ہیں نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس ڈیولپمنٹ اس کے آپ چئیرمین ہیں چوہدری شاہین پیرس!!! کا ایسا معتبر نام ہے جو نہ صرف کاروباری حلقوں میں اعتماد کی ضمانت ہے بلکہ پاکستانی کمیونٹی کے مسائل اہم معاملات اور ان کے سنجیدہ حل کیلیئے ان کی اہمیت کو تدبر کو ہمیشہ ہی تسلیم کیا گیا ہے پاکستان کے حوالے سے ان کی ان کی سوچ میں فکر کا عنصر نمایاں دکھائی دیتا ہے انفرادی حیثیت میں تو بہت کامیاب ہیں مگر جب پاکستانی لوگوں کو پیرس میں من حیث القوم دیکھتے ہوں تو کوئی خاطر خواہ کامیابی نظر نہی آتی اس مسئلے پر بہت کچھ سوچتے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں تا کہ فرانس میں مقیم پاکستانیوں کا تاثر مزید بہتر بنایا جا سکے۔
پاکستانی کمیوینٹی میں کلب کے دیگر عمائدین کی طرح ان کو ہمیشہ ہی بھرپور انداز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے دیکھا ہے کئی پروگرامز میں تو خود مجھے دیکھنے کا موقع ملا خاص طور سے پاکستان کی بات ہو تو اپنے بیحد مصروف وقت میں سے یہ وقت نکال کر ہر اس کاوش میں نمایاں طور پے دکھائی دیتے ہیں جیسا کہ دو سال قبل سیلاب زدگان کیلیئے جس پروگرام کا انعقاد کیا گیا اس میں کئی میٹنگز جو طویل دورانیے پے مشتمل تھیں پہلے منتخب وفد کیلیئے ایک مکمل میٹنگ کا انعقاد ہونا جس مین تمام سوالات اور اہم نکات کو بریف کیا جاتا تھا پھر سب ایک وفد کی صورت میں وہاں روانہ ہوتے یہ سارا عمل کئی کئی گھنٹوں پے محیط تھا پروگرام کے ابھی نقوش بھی واضح نہیں تھے مگر یہ ابتدا سے کامیاب پروگرام کے اختتام تک وہاں موجود رہے اس وقت ہال میں موجود پاکستانی اور دیگر اقوام نے حیرت زدہ ہو کر تالیاں بجائیں جب چوہدری شاہین صاحب نے اپنا نام انانس ہو پر اسٹیج پے جا کر سائن کر کے بلینک چیک پروگرام کے منتظمین کو تھمایا اصل سچے پاکستانی کا وہ روپ اس وقت ہال میں موجود ہر پاکستانی کا دل گرما گیا۔
pakistan floods
دوسری اقوام کے سامنے یقینا ہمارے سر فخر سے بلند ہوئے کہ جہاں پاکستان کا نام صرف منفی سرگرمیوں میں ہی سر فہرست ہم لوگ دیکھتے ہیں وہاں دیارِ غیر میں ایسے ایسے نامور اور بڑے دل والے پاکستانی بھی چوہدری شاہین کو مختلف اوقات میں مختلف پاکستانی پروگرامز میں دیکھنے کا اتفاق ہواہے ان کی باتوں میں معیار اور سچائی کا پتہ اس طرح سے لگایا جا سکتا ہے یہ بات اتنی ہی کرتے ہیں جتنا اس پر قائم رہ سکتے ہیں اور یہ خوبی فی الوقت پاکستانی قوم میں کم ہو رہی ہے کاروباری حلقے ہوں یا سیاسی دوست ہوں یا سیاسی مخالفین سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان کا فہم وفراست اورمحتاط اندازبڑے بڑے پیچیدہ مسائل میں حل نکال لیتا ہے۔
ان کی گفتگو میں ایک تاثر بِالعموم یہ پایا جاتا ہے کہ یہ ان اشخاص میں شامل ہیں جن کو تارکین وطن ہوتے ہوئے بھی اللہ پاک نے ان کی محنتوں کا ثمر وسیع و عریض کاروبار ٹیلی کمیونکیشن کے شعبے میں عطا کیا ہے اسی لیئے فرانس کے بارے میں انکی سوچ عام پاکستانی جیسی نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک میں رہائش پزیر ہیں بلکہ پاکستان سے زیادہ وقت وہ یہاں گزار چکے ہیں تو ان کا کہنا ہے کہ اس ملک کو بھی دوسرا ملک کہنے کی بجائے ااپنا لینا چاہیے کہ جس نے ہمیں آج اس قابل کیا کہ نہ صرف ہم یہاں اچھی زندگی گزار رہے ہیں بلکہ ہم اپنے ملک اور اس ملک میں بسنے والوں کی ہر مشکل وقت میں مدد بھی کرتے ہیں۔
دنیا کا ماحول یکسر تبدیل ہو رہا ہے ایسے میں پاکستانی ذہن کو اب تبدیلی کی طرف مائل ہونا چاہیے ترقی کرتے ہوئے صرف اپنے اہداف پر نظر رکھ کر محنت پر یقین اور اللہ کی ذات پے توکل رکھیں ایک دوسرے سے رسہ کشی کی بجائے تجارتی سیاسی سماجی معاشرتی ماحول کو مل جل کر اچھی سوچ کے ساتھ مشترکہ طور پے کام کرنے کی ایک نئی جہت ڈالیں جس سے دیارِ غیر میں پاکستان کا مقام بھی بلند ہو گا اور ہم اچھی نظروں سے بھی دیکھے جائیں گے۔
نئی نسل کیلیئے والدین سے استدعا ہے کہ ان کو تعلیم کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دیں تاکہ وہ بہترین تعلیمی مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہویئے یہاں بہترین ملازمتیں حاصل کر کے نیا باب شروع کریں کلب میں موجود پاکستانی صحافیوں سے جب کبھی ان کی ملاقات ہوتی ہے کسی پروگرام میں تو ہمیشہ بہت وزنی الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ صحافیوں پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ان کی ایک معمولی سی غلطی “” محرم سے مجرم “” تک کا سفر چند ساعتوں میں طے کر جاتی ہے اس لیے ان کو لکھنے سے پہلے بہت بار سوچنا چاہیے اور الفاظ کی ترتیب و پیشکش کو مرہم بنا کر بھیجیں نہ کہ کسی کیلیئے زخم کا موجب بنیں۔
overseas pakistani
پاکستان کا امیج اس وقت جس خطرناک حد تک جا پہنچا ہے جہاں نہ معاشی تحفظ حاصل ہے نہ ہی اخلاقی توازن دکھائی دیتا ہے نہ جان ومال محفوظ ہے اور نہ ہی قانون نام کی کوئی چیز اس ملک کے بام و در پے دکھائی دیتی ہے ایسے مشکل حالات میں ہر پاکستانی کا فرض ہے وہ اپنے اخلاق سے کردار سے عمل سے اِور اپنے کام سے پاکستان کے امیج کو بہتر سے بہتر کرے تا کہ پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پے گامزن کیا جاسکے ان کا کہنا ہے کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں اس لئے پاکستان کی خاطر بیرون ِملک مقیم پاکستانی اپنے انداز گفتگو سے اندازِ تکلم سے طریقہ بودو باش سے تجارتی اور سماجی اعتبار سے یہاں مناسب طریقے سے ضم ہونے کی بھرپور کوشش کریں تاکہ ہم یہاں پاکستان کا بہترین تاثر دینے میں کامیاب ہوں اوردوسری رہائش پزیر اقوام ہماری ویسی ہی عزت کریں جیسی کسی باشعور غیور اور مہذب قوم کی کی جاتی ہے۔