اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تبلیغ کی اہمیت سمجھانے کی خاطر قرآن کریم میں کھلے اور واضح احکامات دیئے ہیں اور اللہ کے محبوب نبی حضرت محمدۖ نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق زندگی گزارکر ہمارے لیے عملی مثال قائم کی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں گزرے ہوئے زمانے کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا کہ انسان خسارے اورگھاٹے میں ہے ،سوائے ان لوگوں کے جوایمان لائیں اور نیک عمل کرتے اور دوسروں کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہیں۔ اسلام مسلمانوں کواس بات کا حکم دیتا ہے کہ وہ لوگوں کو بُرائی کے راستے سے روکیں اوراچھائی کی دعوت دیتے رہیں ۔ اس سے بڑھ کے بنی نوع کی کیا خدمت ہوسکتی ہے کہ ان کو تباہی و بربادی ، ہلاکت اور کفر و شر سے بچاکر فلاح و کامرانی کے راستے پرلگایا جائے ۔
اگرہم اپنے لیے فحاشی و بے حیائی ،بے راہروی ،ظلم وزیادتی،ناانصافی۔لاقانونیت،دہشتگردی ، اقرباپروری،رشوت ستانی، جاگیردرانہ نظام،سودی نظام ، اور منشیات وغیرہ سے پاک معاشرہ کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں تو پھراپنی ذات کو برائیوں سے پاک صاف کرکے خود بھلائیوں کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھلائی کی دعوت دینابھی ہمارافرض بنتا ہے ۔اسلامی حلقے اس عمل کو تبلیغ کہتے ہیں تبلیغ کے لفظی معنی پیغام پہنچانے کے ہیں ۔غرض یہ کہ جس چیز کو ہم اچھا سمجھتے ہیں اس کی اچھائیوں اور خوبیوں کو دوسروں تک پہنچائیںاور یہ کوشش کریں کے لوگ اُس چیز کی اچھائیوں کودل سے قبول کرلیں ۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اچھائی اور برائی کا فرق سمجھنے کے لیے عقل وشعور عطا کیا اس پرفرض ہوگیا کہ اچھائی کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرے اور برائی سے روکنے کی کوشش کرے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین(اسلام)میں ہمارے لیے ہرجگہ آسانیاں پیدا کیں ہیں۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ ‘تم میں سے جوشخص برائی دیکھے تواسے اپنے ہاتھ سے بدل دے ،اگر طاقت نہ ہوتوزبان سے منع کرے،اگر یہ بھی ممکن نہ ہوتودل میں بُرا سمجھے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔معاشرے میں پھیلی کسی بھی بُرائی کوختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگو ں کو اُس برائی کی وجہ سے ہونے والے دنیاوی اور آخروی نقصانات سے اچھی طرح آگاہ کیا جائے ،اگر کوئی کسی کواتنا کہہ دے کہ تم جو کررہے ہو یہ اچھاکام نہیں ہے تو وہ شخص وقتی طور پر توشائدبرا کام چھوڑ دے لیکن جب منع کرنے والا چلا جائے گا تو وہ دوبارہ وہی کام کرنے لگ جائے گا ۔
اس حقیقت کی ایک مثال ہمارے ہاں بہت عام پائی جاتی ہے ۔مائیں اپنے بچوں کو جب کسی بات سے روکنا چاہتی ہیں تو وہ بچے سے کہتیں ہیں ،آنے دوتمہارے باپ کوآج اُن کوبتاکر تمہیں خوب مار پڑوائوں گی یا پھر کہتیں ہیں بیٹا اب بس کردوتمہارا باپ آنے والا ہے اگر اُس نے دیکھ لیا تو تمہیں مار پڑجائے گی ۔میرے خیال میں سمجھانے کا یہ طریقہ انتہائی غلط ہے ۔اس طرح بچہ یہ سمجھتا ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ کام تو ٹھیک ہے لیکن باپ کو پتا نہیں لگنا چاہیے ۔اس طرح بچہ اکثر اچھے کام کرتے وقت بھی اس بات پر غور رکھتا ہے کہ کہیں اسے اس کا والد تو نہیں دیکھ رہا ۔اس طرح باپ سے ڈرانے کی بجائے اگر مائیں بچوں کو اچھائی اور بُرائی کا بنیادی فرق سمجھانے کی کوشش کریںتو بہت بہتر نتائج برآمدہوسکتے ہیں ۔بات چلی تھی تبلیغ سے اسلام میں تبلیغ کو بڑا مقام حاصل ہے ۔
Preach of Islam
آج دنیا بھر میں بہت سی دینی جماعتیں تبلیغ اسلام کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ۔جس کے خاطر خواہ نتائج بھی ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں ۔لیکن اچھائی کی تبلیغ صرف دینی جماعتوں کا ہی نہیں بلکہ ہم سب کا فرض ہے ۔اگر برائی کا مقابلہ کرکے اسے نست ونابودکرنا ہے تو پھر ہمیں ہر اس طریقے کو اپنانے کی ضرورت ہے جو تیزترین ہو۔آج ہمیں زبانی ،قلمی وتحریری تبلیغ کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی آلات ریڈیو، ٹیلیویژن، دیگر ذرائع ابلاغ اخبارات و رسائل ،انٹرنیٹ اور خاص طور پر فیس بک کو بھی اسلام کی تبلیغ کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔اگر فیس بک کو باطل نظریات و تصورات کی تشہیر کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔
اگر دنیا کی تمام برائیوں کو فیس بک پر شیئر کرکے گندگی پھیلائی جاسکتی ہے تو پھر دعوت حق دے کر لوگوں کو اچھائی کی طرف راغب کیوں نہیں کیا جاسکتا ؟؟فیس بک پر پھیلی فحاشی و عریانی کو دیکھ کر اسے بند کرنے کا مطالبہ کرنے کی بجائے ہمیں چاہیے کہ لوگوں کو فحاشی و عریانی کے نقصانات سے آگا کر کے انہیں اچھائی کی دعوت اتنے اچھے انداز میں دیں کہ وہ اس فحاشی و عریانی کو فیس بک تو کیا اپنی زندگی سے ہی نکال دیں ۔کسی کو برا کہہ دنیا بہت آسان ہے لیکن حاصل کچھ نہیں صرف وقت کا ضیاع ہے اگر یہی وقت جسے ہم دوسروں کی برائیاں تلاش کرکے ان پر تنقید کرنے میں ضائع کرتے ہیں اسی وقت کولوگوں اچھائی کی طرف راغب کرنے میں صرف کریں تو کچھ فائدہ ہوسکتا ہے ۔ٹھیک اسی طرح جیسے کہ بازار میں ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ دکاندار اپنا سامان فروخت کرنیکی غرض سے مختلف طریقے اپناتے ہیں ۔جیسا کہ ایک دکاندار سارا دن دوسرے دکاندار کے سامان کی خامیاں خریداروں کو بتا کر اپنا سامان فروخت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے سامان کے بارے میں کچھ خاص نہیں بتاتا۔
جبکہ دوسرا دکاندارسارا دن اپنے سامان کی تعریف کرتے ہوئے خریداروں کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔آپکے خیال میں دونوں میں سے کامیاب ہونے کے چانس کس کے زیادہ ہیں ؟ْمیرے خیال میں تو جودکاندار دوسرے کے سامان کی خامیاں تلاش کرنے میںاپنا ساراوقت ضائع کرے گا اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا جبکہ جو اپنے سامان کی خوبیان بیان کرکے خرید داروں کو متوجہ کرے گا اسے خاطر خواہ فائدہ ہوسکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر کسی کے مذہب یا فرقے کو برا بھلا کہنے کی بجائے مسلمان صرف اسلام کی تبلیغ کریں ۔اور دنیا کو حق کا پیغام پہنچائیں ،اوراس کام کے لیے ہر پلیٹ فارم کو استعمال کریں ؛قارئین سے درخواست ہے کہ راقم کوئی عالم دین نہیں ہے صرف اپنی ذاتی رائے پیش کررہا ہے ۔
راقم کا ایمان ہے کہ اللہ تعالی کا دین ہی حق ہے اوراحکام الٰہی پر عمل پیرا ہوئے بغیر ہمیں کبھی بھی فلاح و کامرانی نصب نہیں ہوسکتی جس کے لیے ہمیں ملک سے پہلے اپنی زندگیوں میں اسلام نافذ کرنا ہوگا۔اللہ تعالی مجھے ،آپکواور ساری انسانیت کو حق سمجھنے ،سننے،کہنے ،دوسروں تک پہنچانے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق و طاقت عطا کرئے اور عالم اسلام پر اپنی رحمت فرماکر فلاح کامرنی عطا کرے۔ تحریر: امتیاز علی شاکر