چند روز اور مری جان! فقط چند ہی روز ظلم کی چھائوں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم اور کچھ دیر ستم سہہ لیں، تڑپ لیں، رو لیں اپنے اجداد کی میراث ہے معذور ہیں ہم جسم پر قید ہے، جذبت پہ زنجیریں ہیں فکر محبوس ہے، گفتار پہ تعزیریں ہیں اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں عرصہ دہر کی جُھلسی ہوئی ویرانی میں ہم کو رہنا ہے پر یونہی تو نہیں رہنا ہے اجنبی ہاتھوں کا بے نام گرانبار ستم آج سہنا ہے، ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے یہ ترے حسن سے لپٹی ہوئی آلام کی گرد اپنی دو روزہ جوانی کی شکستوں کا شمار چاندنی راتوں کا بے کار دہکتا ہوا درد دل کی بے سود تڑپ، جسم کی مایوس پُکار چند روز اور مری جان! فقط چند ہی روز