دو ہزار آٹھ میں اولمپک مشعل بیجنگ میں بلند ہوئی تو اس کی حدت ممبئی اور کراچی تک محسوس ہوئی۔
olympic torch
جب انیس سو اکیاسی میں بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے چوبیسویں اولمپکس کی میزبانی سول شہر کو دینے کا اعلان کیا تو خوشی سے سکتہ زدہ جنوبی کوریا کو چوبیس گھنٹے تک یقین ہی نہیں آیا کہ اس کے ساتھ کیا ہوگیا اور جب انیس سو اٹھاسی کے اولمپکس کے دوران میں جنوبی کوریا کے ہمسائے چین نے دعوی کیا کہ اگلے بیس سال کے اندر اندر اولمپک شعلہ بیجنگ میں بھی روشن ہوگا تو مغربی میڈیا میں ترقی پذیر چینی دیوانوں کے خواب کا خاصا پھلکا اڑا۔
مگر دو ہزار آٹھ میں اولمپک مشعل بیجنگ میں بلند ہوئی تو اس کی حدت ممبئی اور کراچی تک محسوس ہوئی لیکن کسی بھی جنوبی ایشیائی کو زیرِ لب کہنے کی بھی جرات نہیں ہوئی کہ دیکھنا اب اس مشعل کی روشنی اگلے بیس برس کے اندر اندر ہمالیہ پار اترے گی۔
جرات ہوتی بھی کیسے؟
انیس سو چھیانوے کے کرکٹ ورلڈ کپ کی شریک میزبانی کے بعد سے پاکستان دھشت گردی، انتہا پسندی، کرپشن، لاقانونیت، لوڈ شیڈنگ، ایک کے بعد ایک سپورٹس سکینڈلز اور قومی سطح پر پھیلی بے یقینی کی قبر میں گردن تک اتر چکا تھا اور چہرے کے کتبے پر ٹیڑھے میڑھے لفظوں میں کسی نے لکھ دیا تھا ناکام ریاست کے آرام میں مخل نا ہوں پلیز۔
جبکہ ہمسایہ بھارت اگرچہ ایشین گیمز اور کرکٹ ورلڈ کپ کی شریک میزبانی کے ذریعے اپنی انتظامی صلاحیت ثابت کرچکا تھا لیکن دو ہزار آٹھ میں بیجنگ میں اولمپک شعلہ روشن ہوا تو پینتیس فیصد بھارت نکسل بدامنی کی لپیٹ میں تھا۔ اندرونی و بیرونی دھشت گرد کاروائی اور فرقہ واریت کی چنگاری کے اچانک آگ بننے کا مسلسل دھڑکا رہتا تھا۔ ساٹھ فیصد آبادی تک معاشی ترقی صرف بالی وڈ فلموں کے ذریعے پہنچ رہی تھی۔ کرپشن سیاست کے کپڑے اتار کے بے حسی کی الگنی پر ٹانگ چکی تھی۔ کامن ویلتھ گیمز کی تیاریوں میں گھپلوں کی سڑاند شروع ہوگئی تھی۔
چنانچہ دو ہزار آٹھ کے بیجنگ اولمپکس میں شریک بھارتی یا پاکستانی کھلاڑیوں کا دستہ ایک موہوم سی اولمپکیانہ خواہش کو انگڑائی بنانے کے علاوہ اور بھلا کیا کرسکتا تھا۔
لیکن پھر چار جنگیں لڑنے والے دو مفلس ایٹمی عیاشوں کے ساتھ کم و بیش وہی چمتکار ہوا جو اٹھارہ سو ساٹھ کی خانہ جنگی کے بعد امریکہ، دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ اور جاپان، تین سالہ جنگی تباہی سے گذرنے والے جنوبی کوریا اور ثقافتی انقلاب کے بعد چین کے ساتھ ہوا۔
آج یہ کوئی خبر ہی نہیں کہ بھارت اور پاکستان کی ستر فیصد آبادی مڈل کلاس میں تبدیل ہوچکی ہے۔ پی آئی اے کی سری نگر اور ائیر انڈیا کی کوئٹہ کے لئے ہفتے میں پانچ پروازیں ہیں۔ قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں چالیس فیصد طلبا ہندوستانی اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی میں سینتیس فیصد طلبا پاکستانی ہیں یا موسمِ گرما میں وادیِ کاغان شملہ اور شملہ کاغان میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ تو کیا ڈھائی عشرے پہلے کوئی سوچ سکتا تھا کہ چندی گڑھ پشاور ۔کابل ٹرانس گندھارا موٹر وے کی لمبائی صرف دس گھنٹے ہے۔
الیکٹرونک ویزا سٹیکر لگی کاروں اور موٹر سائیکلوں پر سوار سرحدی چوکیوں پر رکے بغیر ہاتھ ہلاتے ہوئے زن سے گذر جانے والی نئی نسل کے لئے یہ بات کس قدر ناقابلِ فہم ہے کہ سیاچن کی ترائی میں گذشتہ برس کے ونٹر اولمپکس سولہ سال پہلے تک دیوانے کا خواب تھے۔ جیسے میری نسل کے لئے یہ بات آج تک ناقابلِ یقین ہے کہ انیس سو سینتالیس سے پہلے والدِ محترم ہر دوسرے تیسرے مہینے لاہور سے فرنٹئر میل کا ٹکٹ کٹا کے بہانے بہانے ممبئی پہنچ جاتے تھے۔
اب سے سات گھنٹے بعد سمر اولمپکس کی ایک سو بتیس سالہ تاریخ میں پہلی بار جب صدرِ پاکستان کرشن چاولہ اور بھارتی وزیرِ اعظم عظیم الدین خاں نامعلوم شہیدوں کی یادگار پر حاضری کے بعد واہگہ اٹاری ٹیپو سٹیڈیم میں دو ہزار اٹھائیس کے چونتیسویں اولمپکس کا پنج دائرہ پرچم بلند کریں گے تو جنوبی ایشیا منٹو کے دکھیلے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے نکل کے جان لینن کے طربیہ امیجن کے دائرے میں داخل ہوجائے گا۔