جیسے جیسے موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے قریب ترہوتی جا رہی ہے ویسے ویسے اِس کے کارندوں کی چکری بھی گھومتی جارہی ہے اِن میں بوکھلاہٹ کا اثر نظرآنے لگا ہے اور ایسا کیوں نہ ہوں…؟ کیوں کہ ایسا توہوتا ہی تھا ایسے کاموں میں کہ جب اِنہوں نے ساڑھے چار سالوں میں ملک اور عوام کے لئے کچھ کیا ہی نہیں ہے …؟تو اَب اگلے باقی رہ جانے والے چارآٹھ ماہ میں کیا بگاڑ لیں گے…؟اور ملک کو کس اُوجِ ثریاپر لے جائیں گے…؟جِسے کرنے کا یہ اَب اپنا منہ کھول کراورسینہ ٹھونک ٹھونک کر عزم کرتے نہیں تھک رہے ہیں…اَب قوم اتنی بھی وقوف نہیں رہی ہے کہ یہ اِن کے سیاسی حربوں کو بھی نہ سمجھ سکے…؟ اور اِن کے پھرکسی پُرفریب اور دلکش نعروں میں آئے جائے اور آنکھ بند کر کے ایسوں کو دوبارہ اقتدار سونپ دے اور پھرمسائل کی کھائی میں ایسے جا گرے کہ اِس سے نکلنا بھی اِس کے لئے محال ہوجائے…اللہ کرے کہ آئندہ ملک میں ہونے والے عام انتخابات پہلے متفقہ اور ملک کے 23ویں چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم ( المعروف فخروبھیّا) کی زیرنگرانی صاف وشفاف ہوجائیں تو پھر اِس میں دیکھیں گے کہ ہمارے موجودہ بے حس حکمرانوں اور پینترے باز سیاستدانوں کا قوم کیاحشرکرتی ہے …؟
قوم عام انتخابات میں موجودہ حکمرانوںاور اقتدار کے پوجاری سیاستدانوں کا وہ حشر کرے گی کہ یہ آئندہ اقتدارمیں آنے کا خواب دیکھنا تو کیا…؟سیاست کرنابھی بھول جائیں گے…بس ذراصبرکریں عام انتخابات تو ہولینے دیں پھردیکھیں قوم اپنے اِن موجودہ حکمرانوں اور اَدھر سے اُدھرکوئے کی طرح چیختے چلاتے اورپتکتے ہوئے سیاستدانوں کا کیاحال کرتی ہے..؟خیرابھی تو اِن باتوں کوانتخابات تک کے لئے رہنے دیںیہ باتیں اور اِس جیسی بہت سے باتیں اُن ہی دنوں میںکریں گے .. جوتب ہی بھلی بھی لگیں گی مگرابھی تو ہم بات کریں گے وزیراعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ کی سکھرائیرپورٹ پر صحافیوں سے کی گئی اُس گفتگوکی جس میں اُنہوں نے بڑے اعتماد اور سکون کے ساتھ کچھ اِس قسم کے بہت سے دعوے کئے کہ جنہیں ٹی وی چینلزپر سُننے اور اخبارات کی زینت بننے والی خبروں کو پڑھنے کے بعد ہمارے منہ سے بے ساختہ یہ نکلاکہ”چھوڑی لپیٹو..چھوڑی لپیٹو” اور ہم ایک لمحے کے لئے برسوں بیتے اپنے اُس بچپن میں چلے گئے ۔
جب عمرکے اِس حصے میں ہماری طرح آپ کی زبان پربھی یہ الفاظ اکثر آجاتے تھے یعنی یہ کہ ”چھوڑی لپیٹو..چھوڑی لپیٹو”کا نعرہ ہم اپنے پچپن میں تب لگاتے تھے جب ہمارا کوئی ہمجھولی کسی معاملے میں اپنا قداُونچا کرنے کے لئے بغیرسوچے سمجھے جھوٹ بولتاتھااوراے لمبی لمبی چھوڑتاتھاتواِس پر تب ہم اور ہمارے دوسرے ہم عمر ”چھوڑی لپیٹو..چھوڑی لپیٹو” کانعرہ باآوازِ بلند لگا کر ساری گلی کو سر پر اُٹھا لیا کرتے تھے یکدم ایسے ہی ہمارے منہ سے یہ نعرہ بھی آج’ ‘چھوڑی لپیٹو..چھوڑی لپیٹو”…”چھوڑی لپیٹو..چھوڑی لپیٹو”نکل گی اگوکہ اَب اپنی سنجیدہ شخصیت اور عمرکو دیکھتے ہوئے ہم نے تُرنت اپنے منہ پر قابوپا لیا اور یہ سوچنے لگے کہ کاش سکھر ائیر پورٹ پر آج کے دور کے بچے موجود ہوتے تو یقینا وہ بھی شاہ جی.. کی ایسی باتیں سُن کر ضرور ہماری طرح یہ نعرلگا دیتے کہ”چھوڑی لپیٹو..چھوڑی لپیٹو”..”چھوڑی لپیٹو..چھوڑی لپیٹو” ….!!
CM Syed Qaim Ali Shah
بہرحال …قارئین حضرات بات کچھ یوں ہے کہ گزشتہ دنوں ہماری موجودہ جمہوری حکومت کے سندھ کے وزیراعلیٰ سیدقائم علی شاہ کندھ کوٹ روانگی کے لئے جب سکھر ائیر پورٹ پہنچے تو وہاں اِنہوں نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ کراچی میں بھتہ خوری اورٹارگٹ کلنگ پر بڑی حدتک قابوپا لیا گیا ہے یعنی بھتہ خور اور ٹارگٹ کلرز پکڑلئے گئے ہیں، جبکہ اِس موقع پر اِن کا انتہائی تدبر کے ساتھ یہ کہنابھی تھاکہ دوگرپوں کے درمیان مسلح تصادم ہو تواِسے ٹارگٹ کلنگ نہیں کہناچاہئے، اورہماری چاک وچوبندپولیس اور قانون نافذکرنے والے اداروں کے نوجوانو ںنے اپنی چھاپہ مارکارروائیوں میںنہ صرف ٹارگٹ کلرز پکڑلئے ہیںبلکہ بھتہ خور بھی گرفتارکرلئے ہیںاور بھی اِسی طرح کی بہت ساری ایسی باتیں شاہ جی نے اِس موقع پر کیںجن کا تذکرہ ہم اگلی سطور میں کریں گے جیسے اُنہوں نے کہاکہ”رمضان پیکچ پر عملدرآمدشروع کردیاگیاہے اور ہم صرف لوگوں سستا آٹا کی فراہمی کے لئے ڈھائی ارب روپے کی کھلی سبسڈی دے رہے ہیںاور اِس کے علاوہ اِس موقع پراُنہوں نے اپنی عوامی حکومت کا ایک اور بڑاکارنامہ جتاتے ہوئے بتایاکہ اِن کی حکومت میں یوٹیلیٹی اسٹورز پر (صبح سحری کے وقت سے دوپہرتک اور دوپہر سے افطار سے قبل تک اے لمبی لمبی قطاریںاور لائنیں لگانے کے بعدغریب وکم آمدنی اور قسمت والوں ) لوگوںکو کم نرخوں پر اشیائے خوردنوش کی فراہمی کاسلسلہ جاری ہے اِس حوالے سے اِن کا یہ کہنا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو رمضان المبارک میں حکومت مزید یوٹیلیٹی اسٹورز قائم کرے گی،ماہِ صیام میں ہم نے اول روز ہی سے منافع خوروں اورذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھر پور کارروائی کا آغاز کردیاہے ۔
جبکہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ رمضان المبارک کا چاند نظر آنے سے پہلے ہی منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں نے اپنا اپناکام دکھاناشروع کردیاتھااور مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی میں سبقت لے جانے میں شیطان کے حقیقی شاگرد ہونے کا ایساحق اداکردیاتھا کہ اِنہیں لگام دینے کے لئے حکومت نے خالی بیانات اور خبروں کی حد تک ہر سطح پر بہت سے ایسے اقدامات کئے جس کی ایک مثال ہم مندرجہ بالاسطور میں پیش کرچکے ہیں مگر اِس کے باوجود بھی یہ نہ تو منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو ہی سدھار سکی ہے اور نہ ہی یہ اَب تک کوئی ایسااقدام کر پائی ہے کہ جس سے عوام الناس کو یہ احساس ہوچلے کہ حکومت نے منافع خوروںاور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کوئی سخت قدم اٹھاتے ہوئے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا کوئی قابل ستائش کارنامہ انجام دے ڈالاہے جہاں تک بات ہے یوٹیلیٹی اسٹورز پر کم نرخوں پر اشیائے خودر نوش کی فراہمی کی تو حکومت کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر کتنے ایسے غریب اور کم آمدنی والے لوگ ہیں جو یہاں کی پابندیوں اور درپیش پریشانیوں کی وجہ سے حکومت کے قائم کردہ اِن یوٹیلیٹی اسٹورز سے خریداری کرنے سے اجتناب برتتے ہیں اور اپنی مطلوبہ اشیائے خودونوش مہنگے داموں ہی اپنی گلی کوچوں ، محلے اور بازاروں کے پرچون فروشوں سے خریدنے میں اپنی عافیت جانتے ہیں۔
utility store
اگر حکومت کو ماہِ صیام میں عوام کو حقیقی ریلیف ہی دینا مقصود ہے توپھر ضرورت اِس امر کی ہے کہ ماہِ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی پرچون فروشوں نے گرانی کا جو بازار گرام کررکھ اہے اِنہیں لگام دینے اور اِن کو قابوکرنے کے لئے ایسے اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ ایسی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جائیں جن سے عوام کونہ صرف ماہ رمضان ہی میں نہیں بلکہ اِس کے بعد بھی روزمرہ استعمال کی اشیائے ضرورت پرچون فروشوں سے سستی داموں ملے سکے حکومت کا عوام کو ریلیف کے مد میں صرف یوٹیلیٹی اسٹورز کی حد تک اقدامات کرناسمجھ سے بالاتر ہے اور اِس کے علاوہ گلیوں ، محلوں اور بازاروں میں چھوٹے بڑے دکانداروں کی جانب سے آنکھیں بندکرنااور اِنہیں ناقص اور مہنگی اشیاء کی فروخت کے لئے فری ہینڈدیاسراسرحکومتی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے۔ اوراَب ہم بات کریں گے سندھ کے وزیراعلی سیدقائم علی شاہ کی کراچی میں ٹارگٹ کلرزاور بھتہ خوروں کے قلع قمع کرنے کی اُس خوش فہمی کی جس کا اظہار اُنہوں نے بڑے وثوق کے ساتھ کیاتھا تو ہم یہاں یہ عرض کرناچاہیں گے کہ جناب شاہ جی صاحب…!!آپ یہ کیاکہہ رہے ہیںکہ کراچی سے ٹارگٹ کلرزاور بھتہ خوروں کا خاتمہ ہوگیاہے تو جناب آپ کی یہ بات یکدم غلط ہے. ہم سمجھتے ہیں کہ اِن سطور کے رقم کرنے تک جس حساب سے آج بھی میرے اور آپ کے پیارے شہرِ کراچی میںلوگوں کو ٹارگٹ کرکے ماراگیاہے اور اِسی طرح گزشتہ کئی سالوں اور ماہ سے معصوم لوگوں کو مختلف بہانوں سے نشانہ بناکر قتل کیاجارہاہے ا بھی تو اِس معاملے میںآپ کو آٹے میںنمک جتنی بھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی ہے صرف دو، چار، دس، بیس یا سوپچاس ٹارگٹ کلرز کو پکڑلینے سے آپ کا یہ کہناکچھ مناسب نہیں لگاکہ شہرِ کراچی سے ٹارگٹ کلرز کاخاتمہ ہوگیا ہے اور اِسی کے ساتھ ساتھ آپ کا یہ بھی کہناہے کہ شہرمیں پھیلے ہوئے بھتہ خوروں کے نیٹ ورک کو بھی سبوتاز کرنے میں بھی کامیابی حاصل ہوگئی ہے تو یہ بھی سوائے دل کے بہلاوے کے کچھ نہیں ہے۔
Target killers
ہم سمجھتے ہیں کہ شہرِ کراچی سے ٹارگٹ کلرزاور بھتہ خوروں کے خاتمے اور اِن کے پھیلے ہوئے وسیع جال کو توڑنے کے لئے ابھی حکومت سندھ اور پولیس اور قانون ناف ذکرنے والے اداروں کو دن رات انتھک محنت اور جدوجہدکرتے ہوئے اپنی بھر پور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگاتب کہیں جاکر آپ اِس قابل ہو پائیں گے کہ آپ یہ کہہ سکیں گے کہ ہم نے اپنے شہرکراچی سے ٹارگٹ کلرزاور بھتہ خوروں کو ختم کردیا ہے۔ اگر ایسانہیں کریں گے تو پھر ابھی آپ کا یہ کہنا کہ کراچی سے ٹارگٹ کلرزاور بھتہ خوروں کا سندھ انتظامیہ نے خاتمہ کردیاہے ایک مضحکہ خیز بات کے ساتھ ساتھ بہت سے سوالات کوبھی جنم دے رہی ہے۔ تحریر: محمداعظم عظیم اعظم