سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ فصیح بخاری کا خط آئین سے انحراف کے مترادف ہے، خط کو بہانہ بنا کر کوئی غیر جمہوری کام نہ کریں۔
سپریم کورٹ میں رینٹل پاور عمل درآمد کیس کی سماعت کے دوران پراسیکیوٹر نے چیئرمین نیب کا خط پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ خط میں عدلیہ کے خلاف جو زبان استعمال کی گئی اس کا عوام میں کیا تاثر جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین نیب کے خط کے بعد انتخابات ملتوی کرنے کی صورتحال بنائی جا رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خط کے مندرجات عدلیہ کے معاملات میں مداخلت اور آئین سے انحراف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پراعتماد ہیں کہ انتخابات وقت پر ہوں گے۔ انتخابی عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا فرض ہے کہ آئین کا تحفظ کریں اور آئین کو پامال نہ ہونے دیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی غیر آئینی سیٹ اپ آئین سے انحراف کے مترادف ہوگا۔ سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کو 4 فروری کو طلب کر لیا ہے۔
اس سے پہلے نیب حکام نے سپریم کورٹ میں خط کے ساتھ تعمیلی رپورٹ بھی پیش کی۔ رپورٹ میں چیئرمین نیب نے خط لکھنے کی وجوہات بیان کی ہیں۔ سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب فصیح بخاری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں 4 فروری کو عدالت کے روبرو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ رینٹل پاور کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے حکم میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب خط کو بنیاد بنا کر عسکری حکام، سول ادارے یا ایگزیکٹو کوئی ایسا کام نہ کریں جو آئین کے خلاف ہو۔
ملک میں آئین اور قانون کے تحت پارلیمانی نظام کام کر رہا ہے۔ کوئی ایسا نظام وضع نہ کیا جائے جس کی آئین اجازت نہیں دیتا۔ سپریم کورٹ کا اپنے حکم نامے میں مزید کہنا تھا کہ آئندہ 5 سال کیلئے انتخابات ہونے والے ہیں۔ آئندہ ملک میں انتخابات آئین کے مطابق ہی ہوں گے۔