عدالت عظمی میں کراچی کے حالات سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران منگل کے روز چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے ریمارکس میں حکومت سے یہ تحریری بیان دینے کے لئے کہا ہے کہ وہ مسلح گروپوں کا ساتھ نہیں دے گی اور صرف مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ اگرچہ کسی بھی حکومت کی بنیادی ذمہ داری عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنا ،قانون کی حکمرانی قائم کرنا، انصاف فراہم کرنا اور امن و امان کو یقینی بنانا ہوتا ہے مگر اس بات کو ایک المیہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کو حکمرانوں کی توجہ مذکورہ ذمہ داریوں کی طرف مبذول کرانے کی ضرورت محسوس ہوئی اور یہ کہنا پڑا کہ ایک تحریری بیان کے ذریعے مسلح گروپوں سے لاتعلقی اور مظلوموں کی اعانت کا واضح اظہار کریں۔ جس ملک کا قیام اسلام کے مقدس نام پر عمل میں آیا اور جس کے لئے جدوجہد کرنے اور قربانیاں دینے والوں نے امن، انصاف، احترام آدمیت ، اور عوامی فلاح و بہبود پر مبنی معاشرے کا خواب دیکھا تھا وہاں آزادی کے63برسوں بعد بھی لاقانونیت ،طوائف الملوکی ، کرپشن ، لوٹ مار اور بڑے پیمانے پر استحصال کی کیفیت نظر آئے تو اس پر سب ہی کو نہ صرف تشویش ہونی چاہئے بلکہ ان اسباب کو دور کرنے کی سنجیدہ کوششیں بھی کی جانی چاہئیں جو حالات کو اس مقام پر لانے کا ذریعہ بنے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عوام اور دانشوروں کی سطح پر ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت ، غیر ملکی اثرو نفوذ ،دہشت گردی ، بیرون ملک سے آنے والی معاشی و سیاسی پالیسیوں اور اداروں میں پیدا ہونے والے بگاڑ کو اضطراب کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے مگر ارباب حکومت کے طرز عمل کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک جس صورتحال سے دوچار ہو چکا ہے اس میں ان کے لئے تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں قتل و غارت ، بھتہ خوری، زمینوں پر قبضوں ، اغوا برائے تاوان کے واقعات میں اضافے اور صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کے مسلح گروپوں کے ہاتھوں یرغمال بننے کے باوجود جس طرح موثر اقدامات سے گریز کیا گیا اس کے باعث نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ کراچی کے شہری سخت خوف زدہ ہیں، ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور ملک بھر کے لوگ اس صورتحال کوانتہائی تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔یہ حالات اگرچہ اچانک پیدا نہیں ہوئے بلکہ سالہا سال سے حکومتوں کی غفلت و ناعاقبت اندیشی کا نتیجہ ہیں مگر پچھلے ساڑھے تین برسوں میں جو کیفیت پیدا ہوئی ہے، اس کے باعث ملکی سلامتی کے حوالے سے بھی عام لوگوں کی تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔کراچی کے حالات درست کرنے کے حکومتی سطح پر دعوے بھی ہوئے ،صوبائی حکومت میں شامل جماعتوں کی کور کمیٹیاں بھی بنیں، مشترکہ گشت بھی کئے گئے۔ مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہا۔ وقتی طور پر امن کے وقفے آتے رہے اور پھر شہر قائد میں آگ اور خون کا کھیل کھیلا جاتا رہا۔ حکومت میں شامل پارٹیاں ایک دوسرے پر الزامات بھی لگاتی رہیں اور شہر میں امن قائم کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے دعوے بھی کرتی رہیں۔ انسانی جانوں کی ارزانی اس سے زیادہ کیا ہو سکتی ہے کہ صرف اگست 2011 میں تین سو سے زیادہ افراد دہشت گردی کی نذر ہو گئے۔ بھتہ خوروں کی دھمکیوں اور تاجروں پر تشدد کے واقعات ،منشیات فروشوں کی سرگرمیوں، زمینوں پر قبضہ کرنے والوں اور مختلف مافیاں کے آگے مقامی انتظامیہ اور پولیس بے بس نظر آئی جبکہ شہر میں 1994 سے رینجرز کی موجودگی کے باوجود اس سے قیام امن کے لئے موثر طور پر کام لینے سے گریز کیا گیا۔ حتی کہ جب جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کے اعلانات بھی کر دیئے گئے تو رینجرز کے اختیارات میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے میں کئی روز لگا دیئے گئے جس کے باعث ملزمان کو چھپ جانے یا فرار ہونے کا موقع مل گیا۔ یہ وہ حالات تھے جن میں کئی سنگین سیاسی مسائل بھی پیدا ہوئے اور جمہوری نظام خطرے میں نظر آنے لگا ۔ سپریم کورٹ نے جب سے کراچی کے حالات کا از خود نوٹس لیا ہے، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کمی تو آئی ہے مگر اکا دکا واقعات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس منظر نامے میں چیف جسٹس جب یہ کہتے ہیں کہ وقت آ گیا ہے کہ ہم صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سیاست دانوں اور بیوروکریسی کی سطح پر حقائق کو اس طرح پیش نہیں کیا جا رہا ہے جیسے وہ اصل میں ہیں۔ جس ملک میں سیاسی یا دیگر ضرورتوں کے تحت حقائق سے چشم پوشی کی جا رہی ہو، جہاں مسلح گروپوں نے عوام کا جینا دو بھر کر رکھا ہو اور حکمراں اپنے وقتی مفادات کے لئے موثر کارروائی سے گریزاں ہوں، وہاں نہ صرف عوام جرائم پیشہ افراد کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کے مطالبے پر مجبور ہوتے ہیں بلکہ عدلیہ کو بھی مذکورہ نوعیت کی ہدایات جاری کرنا پڑتی ہیں۔ وگرنہ یہ ہر حکومت کا بنیادی فریضہ ہے کہ وہ مظلوم عوام کا سہارا بنے، اسلحے کے بل پر امن و امان غارت کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچائے اور جو لوگ بھی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوں ان کے خلاف یہ بات خاطر میں لائے بغیر کارروائی کرے کہ ان کا تعلق کس سیاسی جماعت یا گروہ سے ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے جس رہنما اصول کی نشاندہی کی ہے وہ دستور پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک کے آئین کی بنیاد ہے۔ ریاستوں کا ڈھانچہ اسی ضرورت کے تحت استوار ہوتا ہے کہ عوام کو امن، انصاف ، تحفظ ،روزگار کی ضمانتوں سمیت زندہ رہنے اور ترقی کرنے کا استحقاق ہو۔ اسلئے ہمارے حکمرانوں کو سوچنا چاہئے کہ وہ پاکستان کو کس طرف لے جا رہے ہیں ؟یہ بات اگرچہ درست ہے کہ ہمارے حکمراں طبقے میں سے بہت سوں کی جائیدادیں ، بینک بیلنس اور مستقل مفادات دوسرے ملکوں میں ہیں اوردوسرے ممالک کی شہریت رکھنے والے افراد بھی صاحبان اقتدار میں شامل ہیں مگراس عمل میں عوام کے اعتماد کو مجروح نہیں کرنا چاہئے جن کے ووٹوں سے وہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے ہیں۔ حکمران سیاسی جوڑ توڑ ضرور کریں مگر یہ بات خود بھی ملحوظ رکھیں اور اپنے حلیفوں پر بھی واضح کر دیں کہ سیاسی اتحاد و تعلق صرف قانون کی حدود میں رہ کر ہی ممکن ہو گا۔ جس جماعت کی چھتری تلے کسی بھی طور پر جرائم پیشہ افراد آ چکے ہوں اسے ان سے لا تعلقی اختیار کرتے ہوئے یہ واضح کرنا ہو گا کہ ایسے عناصر کو کسی طرح کا تحفظ فراہم کر کے سیاسی اصولوں ، جمہوری روایات اور مملکت کے مفادات سے صرف نظر نہیں کیا جائے گا ۔ صرف اسی طریقے سے ملک میں قانون و آئین کی حکمرانی یقینی بنائی جا سکتی ہے ۔ اسی طرح پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی اثر و رسوخ سے مکمل طور پر پاک کر کے ہی عوام کو ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اور دوسرے جرائم سے موثر طور پر نجات دلائی جا سکتی ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے بیرونی قوتوں اور ان کے ایجنٹوں کے لئے آزادی سے کام کرنے کے مواقع بھی محدود ہو سکیں گے۔اور ملک و قوم کو پورے اعتماد کے ساتھ ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن کیا جا سکے گا۔