چینی صدر کا بھارت کے پہلا سرکاری دورہ

India Trip

India Trip

چین (جیوڈیسک)چین صدر شی جن پنگ بھارت کا اپنا پہلا دورہ بدھ کو ریاست گجرات کے شہر احمد آباد سے شروع کر رہے ہیں۔ وہ اپنے تین روزہ سرکاری دورے پر بدھ کو بھارت پہنچیں گے جہاں وہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ اور سرحد کے دیرینہ تنازع کے حل پر بات کریں گے۔

چین کے صدر کے ساتھ ان کی اہلیہ اور گلوکارہ پینگ لی یوان بھی ہوں گی۔
واضح رہے کہ چین اور بھارت دنیا کے دو سب سے زیادہ آبادی والے ممالک ہیں اور چین بھارت کے اہم ترین تجارتی پارٹنرز میں سے ایک ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان سرحد کے تعلق سے اختلافات رہے ہیں جبکہ سنہ میں 1962 ان دونوں کے درمیان ایک مختصر جنگ بھی ہو چکی ہے اور اس کے تعلق سے وقتا فوقتا تنازعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ بیجنگ اور نئی دہلی نے اس بابت کئی ادوار کی بات چیت کی ہیں تاہم ابھی تک یہ مسئلہ حل طلب ہے۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ نئے وزیر اعظم نریندر مودی کے آنے سے دونوں ممالک کے رشتے میں بہتری کے آثار ہیں کیونکہ وزیر اعظم معیشت کو بہتر بنانے اور چین سے رشتہ استوار کرنے کے خواہش مند ہیں۔ جولائی میں علاقائی تنظیم برکس کے سربراہ اجلاس میں دونوں رہنماؤں کی برازیل میں ملاقات ہوئی تھی جہاں انھوں نے دوطرفہ باہمی تعلقات کے فروغ پر زور دیا تھا۔

شی جن پنگ کے دورے سے قبل مودی نے اپنے ٹوئیٹ میں لکھا ’اگر مجھے بھارت اور چین کے رشتوں کو بیان کرنا ہو تو میں کہوں گا انچ کا مطلب مائلز ہے۔‘ انھوں نے ’انچ‘ کو ’انڈیا-چین‘ اور ’مائلز‘ کو ’ملینیئم ایکسپشنل سنرجی‘ کے مخفف کے طور پر استعمال کیا۔

ایک دوسرے ٹوئیٹ میں انھوں نے لکھا ’بھارت اور چین کے مابین انوکھے رشتے تاریخ رقم کر سکتے ہیں اور تمام انسانیت کے لیے بہتر کل بنا کی تعمیر کرسکتے ہیں۔‘ شی جن پنگ گجرات کے شہر سے اپنے دورے کا آغاز کر رہے ہیں جہاں ان کے اعزاز میں ایک ثقافتی پروگرام منعقد کیا جائے گا اور نریندر مودی کی جانب سے عشائیہ دیا جائے گا۔

بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ ’بھارت شی کے پہلے دورے سے اچھے نتائج کی امید کرتا ہے۔‘ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ شی کی اہلیہ پنگ چین میں ایک مقبول گلوکارہ ہیں اور وہ دونوں ممالک کے رشتوں میں کچھ کردار ادا کر سکتی ہیں۔

ان کے ہمراہ چین میں بنے موبائل فونز اور دوسرے سامان ہوں گے جو وہ دیگر ممالک کے سفر کے دوران بھی پیش کرتی رہی ہیں۔ چینی صدر روایتی روش سے ہٹ کر احمد آباد کے گاندھی آشرم جا سکتے ہیں جبکہ ماضی میں چینی لیڈر دونوں ممالک کے تاریخی تعلقات کے تحت بودھ مذہب کے مراکز کا انتخاب کرتے تھے۔

چین میں مزدوری کی بڑھتی شرح کے پیش نظر کم قیمت اور ہنر مند افراد کی وجہ سے بھارت چین کو بہتر مواقع فراہم کر سکتا ہے جبکہ بھارت کو بہتر بنیادی ڈھانچے اور مالی امداد کی ضرورت جسے چین پورا کر سکتا ہے۔

چین کے سب سے بڑے سیاسی مسئلوں میں سے ایک تبت کی تحریک ہے۔ چین کا خیال ہے کہ بھارت میں رہ کر دلائی لامہ علیحدگی پسند تحریک کو ہوا دے رہے ہیں اور چین اسے اپنے اندرونی معاملات میں دخل قرار دیتا ہے۔ عشائیے کے بعد دونوں رہنما دہلی کے لیے روانہ ہوں گے جہاں جمعرات کو دہلی میں واقع حیدرآباد ہاؤس میں دونوں کی باضابطہ بات چیت ہو جہاں بہت سے معاہدوں پر دستخط کی امید کی جا رہی ہے۔ جمعے کو واپسی سے قبل کانگریس صدر سونیا گاندھی سے چینی صدر کی ملاقات متوقع ہے۔