اب پھر چینی کا رولا رپا پڑ گیا ہے حکومتی کار پرداز دو لاکھ ٹن چینی باہر سے انسٹھ روپے کلو خریدنے کیلئے پلید پلان بنا چکے تھے حالانکہ یہاں اس سے کم قیمت پر سٹاک شدہ چینی مل سکتی تھی کہ چینی کے مل مالکان نے جو سبھی ہی مختلف حکومتوں کے کارپرداز رہے ہیں اور ہیں کئی لاکھ ٹن چینی سٹاک کر رکھی ہے مطلب یہ کہ چھپا کر رکھ رکھی ہے سوال اٹھتا ہے کہ کس لئے ظاہر ہے زیادہ منافع لینے کے لالچ میں جو کہ ایک سخت لعنتی عمل ہے جس کے لئے احکام خدا وندی ہیں کہ ایسے لوگ معاشرے کے ناسور ہیں جو ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور عوام الناس کو تنگ کرتے ہیں انہی ملوں کے مالکان نے گنا کم قیمت پر لیا تاکہ غریب کسان کی محنت کا پھل اسے نہ مل سکے اور مسلسل کئی سالوں سے تو جو ادھار پر گنا ہتھیا لیا گیا ہے اس کی رقوم بھی ادا نہیں کی جا رہی ہیںجو پھر صنعت کاروں کی سرمایہ ہڑپ کرنے کی مسلسل غلیظ حرکت ہے کراچی کے ایک مشہور شوگر ملز کے مالک نے یہ کہا تھا میں نے پنجاب میں ایک بھینس پال رکھی ہے اسے میں چارہ ڈالوں یا نہ وہ دودھ دیتی رہتی ہے وہ کبھی بوائلرز وغیرہ اور پائپوں کی مرمت نہیں کرواتا اور ہر سال حادثات سے مزدور مرتے رہتے ہیں حکومت تین ارب کی سبسڈی دیکر جو شوگر یوٹیلٹی سٹور پر 5روپے کم قیمت پر فروخت کرتی ہے اس میں سے یوٹیلٹی سٹورز والے ہی کماتے ہیں کہ عوام کو تو چینی ملتی نہیں بلکہ زیادہ تر چینی بازاروں میں بیچ کر یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن والے منافع ہڑپ کرتے ہیں اور سارا کالا دھن اوپر تک خوشی خوشی بانٹ لیا جاتا ہے شوگر ملز ایسوسی ایشن ، اقتصادی رابطہ کمیٹی وغیرہ ایسی نام نہاد تنظیمیں ہیں جو مالکوں سے اربوں روپے لے کر کھاتی ہیں اور قیمت فروخت ان کی مرضی کے مطابق اعلان کر دیتی ہیں اس طرح سے یہ تمام اعمال عوام کا خون چوسنے اور ان کا مہنگائی کے ذریعے کچومر نکال ڈالنے والے ہیں اگر آئندہ انتخابات کے ذریعے اقتدار اللہ اکبر تحریک کو ملا تو تمام خوردنی اشیاء کی قیمت سبسڈی دے کر 1/5رہ جائے گی جو مہنگائی کو دور کرنے کا ایک پسندیدہ عمل ہو گا اس طرح چینی تو دس یا بارہ روپے کلو ملے گی دنیا میں قیمتیں کم ہو رہی ہیں اور یہاں بڑھائی جا رہی ہیں اس دفعہ توحکومت نے بہت عرصہ قبل تمام شوگر ملز مالکان کو ایک فکسڈ تاریخ دی تھی کہ فلاں تاریخ تک تمام کاشتکاروں کی پچھلے سال کے گنے کی فروختگی والی رقم ادا کردیویں۔ اور سابقہ کئی سالوں کے غریب زمینداروں کو بھی ادا کر دیں۔ انکے قرضے اتار دیں ۔ چونکہ یہ لوگ رقم تو منافع سمجھ کر ہڑپ کر چکے ہیں ۔ ملوں میں توسیع کرنے کے ضمن میں یا پھر نئی مل لگانے یا نئی مشینری کے لئے رقوم خرچ کر چکے ہیں۔ غریب کسانوں کو کہاں سے دیں گے اسلئے اُلٹی گنگا بہانے کے لئے حکومت کو پریشرائز کر رہے ہیں۔ وقت بے وقت شوگر ملز ایسوسی ایشن کے صدور کے نام نہاد استعفے اور پھر واپسی صرف حکومتی اداروں کو بلیک میل کرنے کے لئے ہی نہیں ہوتے ہیں بلکہ غریب عوام کے لئے جوہر مرتبہ دوبارہ / سہ بارہ چینی کو مزید مہنگا کرنے کا پلان صنعتکار بناتے ہیںاسکا صرف ٹریلر ہی ثابت ہو تے ہیںاگر اس غریب ملک کے اندر سود خور سرمایہ دار اور صنعتکار بھی تنظیمیں بنا کر مطالبے شروع کر دیں تو پھر غریبون کا خون نچوڑ کر جو یہ لوگ کروڑ پتی بنے ہوئے ہیں ان کی تو پھر چاندی ہی چاندی ہے۔ انکی طرف سے لاکھوں روپے خرچ کر کے ملک کے مختلف شہروں میں ا پنی سرمایہ داروں کی انجمن یا ایسوسی ایشن کے اجلاس طلب کرنا تا کہ حکمرانوں کو آنکھیں دکھا کرغر یب عوام کی مزید کھا ل کھینچی جائے قابل نفرین عمل ہی نہیں بلکہ شدید قابل مذمت بھی ہے ۔ان اجلاسوں کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہوتی ہے چونکہ کبھی بھی کوئی ملک کا ذی شعور فرد ایک لمحے کے لیے بھی تصور نہیں کر سکتا کہ سودخور سرمایہ داروں کے کسی بھی قسم کے اجلاس غریب عوام کے مفاد میںمنعقد کئے جا سکتے ہیں لا کھوں روپے خرچ کر کے ایسے اجلاسوں کے انقعا د کا مقصد صرف پھر وہی چینی کا ایکس مل ریٹ بڑھا کر غریب عوام کو مزید تڑپانا ہوتا ہے ۔ جس کسان نے بھی زمین یا مکان گروی رکھ کر قرضہ حاصل کیا ہوا ہے اسکی تو جان کو پڑی ہوئی ہوتی ہے اور تحصیلدارکے دفترسے روزانہ وارنٹ جاری ہوتے رہتے ہیں۔ انکی گرفتاری معمولی رقوم ادا نہ کرسکنے پر ہوجاتی ہے لیکن آج تک کوئی سود خور سرمایہ دار یا صنعتکار پکڑا نہیں گیا۔ مثلاًجب تک کہ متعلقہ ایس ایچ او کو حصہ نہ ملے پر چی جوئے کا دھندہ ، ڈکیتی، اغواء برائے تاوان جیسے عمل ہو ہی نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح سے سرمایہ داروں کی انجمنیں اوپر تک مال دے رہی ہوتی ہیںاور کوئی عدالت یا قانون انکا کچھ بھی بگاڑ نہیں پاتا۔ کرشنگ سیزن کو لیٹ کرنے کے بھی کئی مقاصد ہوتے ہیں ۔زمیندار نے زمین خالی کر نی ہے۔ اسلئے وہ اونے پونے گنا کسی آڑھتی کو یا درمیانی دلال کو بیچ ڈالے گا اور جب ملیں کرشنگ شروع کر ینگی تو سفارشی لوگ اور حکومتی ٹائوٹوںکا گنا ملیں لیں گی اور غریب کسان صرف رشوت دینے کے دھندے کے باوجود بھی اپنا گنامل کو اونے پونے داموں فروخت نہ کر سکیں گے۔ اور وہ بھی آئندہ سال کے ادھار پر ۔حکومتی ایوانوں میں تو ہمیشہ بوجوہ سود خور سرمایہ داروں ،جاگیرداروں ، صنعتکاروں اور وڈیرہ شاہی کا راج ہی رہتا ہے انکی تعداد ہر دور میں زیادہ رہی ہے۔ اسلئے انہیں کسی سیاسی پارٹی کے منشور یا پروگرام سے بھی کوئی فکر اور خطرہ نہ ہے ۔ کیا ملیں اسی لئے ریشم کے تار بُنتی ہیں کہ غریب کے بچے اسکی تار تار کو ترسیں؟۔ کیا یہ سبھی لوگ غریبوں کا خون چوسنے کے عمل کو جاری رکھنے پر ہر دورمیں متفق علیہ نہیںرہے ؟ جس روز غریب عوام اکٹھے سر جوڑ کر بیٹھ گئے اسی روز انقلاب آ جائیگا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ملیںنیشنلائزڈ کی تھیں مگر کرپٹ بیورو کریسی نے بھی وہی کام کیا جو کہ مالک صنعتکارکرتے رہے تھے۔وہ ملوں کو لوٹ کا مال سمجھ کر اسکا فرنیچر تک اٹھا کر گھروں کو لے گئے اہم پرزہ جات بیچ کر کھا گئے۔ اور ملوں کی جگہ پر صرف خراب مشینری اور مکانوں کے ڈھانچے باقی رہ گئے ہیں۔ اور صنعتوں کا بھٹہ بیٹھ گیاکاش کہ یہی ملیں ایماندار افسروںیا پھر منتخب مزدور یونینوں کے حوالے کر دی جاتیں۔ تو آج انقلاب آچکا ہوتا اور مہنگائی کا سیلاب تھم گیاہوتا۔اسی طرح نابغہ عصر اور عقبری اسلام مولانا سید ابو الاعلیٰ کا وہ قول بالکل آج صادق آتا ہے جب انہوں نے 1947میں ہی اس برصغیر کے سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کو اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ روپے کی خدائی کا تخت اب متزلزل ہے۔ لوگوں کی محنتوں سے ناجائز منافع خوری کا کاروبار اب بند کرنا ہو گا۔ انصاف کے تقاضے پورے کرنا ہوں گے وگرنہ روپے کے ساتھ ساتھ آپکی نام نہاد شخصیت کو بھی یہ سرمایہ داری کا ڈوبتا ہواسفینہ لے ڈوبے گا۔ یہ لوگ غریب عوام کا خون چوس چوس کر جس طرح سے جسمانی طور پر سرمایہ کی بنیاد پر موٹے ہو رہے ہیں انکا یہ کریہی عمل انکو انکے انجام سے نہ بچا سکے گا۔ اور کوئی بھی تدبیر کارگر نہ ہو سکے گی۔ نام نہاد سیاستدان صرف نعرے بازی کرتے ہیں نئے نئے خان اور پہلوان جب ٹیکس بڑھائیں گے تو لا محالہ مہنگائی ہی بڑھے گی ۔ شہروں میں تو دوکانداروں کی انجمنیں اورتنظیمیں موجود ہیں وہ بھی کیا کریں ؟مال ان کو مہنگا ملے گا تو مہنگا ہی بیچیں گے بلکہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑ لیتا ہے کے مصداق جب وہ صنعتکاروں کا پروگرام غریب عوام کی کھال ادھیڑنے والا دیکھتے ہیں تو خود بھی لالچ کا شکار ہو کر اسی دوڑ میں لگ جاتے ہیں ۔ اس ملک کے کسان دور دراز دیہاتوںمیں بکھرے ہوئے ہیں اور وہ کولہو کے بیل کی طرح فرصت ہی نہیں رکھتے ۔ مجتمع اور منظم بھی نہیں ہو سکتے نام نہاد کسان تنظیمیں ائیر کنڈیشنڈ دفتروں میں کا غذوں تک محدود ہیں وگرنہ اس ملک میں انقلاب آچکا ہوتا ۔ مختلف کسان راہنما یان بھی بیان بازی سے باہر نہیں نکلتے ،اور پجاروگاڑیوںپر سفر کرتے ہوئے غریب کسانوں کے مطالبات کے لئے نعرہ زن نظر آتے ہیں تا کہ بین الا قوامی تنظیموں سے مال بٹور کر اپنے پیٹ کی تجوریوں کو مزید موٹا کرسکیں۔ مل مالکان نے قرضے لیکر یا تو معاف کروا لئے ہیں یا پھر منافع سے حاصل کردہ سرمایہ کا پچاسی فیصدباہر کے بینکوں میں شفٹ کر چکے ہیں ۔ یہ سرمایہ ملک کے اندر واپس کسی قاعدہ قانون یا اپیلوں سے نہیں بلکہ صرف مولا بخش کے ڈنڈے سے ہی آسکتا ہے۔ مگر وہ ڈنڈا کس کے ہاتھ میں ہونا چاہئے صرف یہی طے کیا جانا باقی ہے۔ غریب کسانوں سے گنا مل مالکان کے مقرر کردہ درمیانی ایجنٹ اور دلال وغیرہ اونے پونے داموں خرید کر لیتے ہیں کرشنگ سیزن شروع ہونے کے بعد بھی گنا غریب کسانوں کا نہیں بلکہ بڑے بڑے جاگیرداروں کا ہی اولین ترجیح پر خریدا جاتا ہے غریب کسانوں کا پھر بھی کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ۔ اگر انکا گنا خریدا بھی جاتا ہے تو تما م سابقہ سالوں کی طرح اس کی ادائیگی بالکل نہیں کی جاتی اور سال ہا سالوں کے ادھار کی طرح پھر غریب کسان کئی سال مزید مل مالکان کے دفتروں کے چکر اپنی رقوم حاصل کرنے کے لئے لگاتے رہتے ہیں۔ عقل کے اندھے سرکاری پالیسی ساز ادارے اتنے احمق واقع ہوئے ہیں کہ پالیسی اس طرح سے مرتب کرتے ہیں کہ چینی مزید مہنگی تر ہوتی جائے مثلاً بیرون ملک سے چینی منگوا کر اس پر دس فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی وصول کرنے سے چینی کی مہنگائی کا کیا عالم ہو گا عام آدمی تصور کرتا ہے تو اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہ صرف اس لئے کہ شوگر ملز مالکان میں سے شجاعت حسین، پرویز الٰہی،نواز شریف ، جہانگیر ترین کی طرح کے پچاسی فیصد مل مالکان وزارتوں یا سرکاری عہدوں پربراجمان ہیں اور دیگر مالکان کرپٹ بیورو کریٹس ہیں ۔ تمام پلاننگ ان لالچی صنعتکاروں کو زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے ذرائع مہیا کرنے کے لئے ہے ریگولیٹری ڈیوٹی اسی لئے وصول کی جا رہی ہے تاکہ ملکی صنعتکار وں یعنی ” حکومتی کارندوں” کا منافع کم نہ ہو سکے ۔ جب اس ملک کے انقلابی کہتے ہیں کہ ہم ناجائز منافع خور سرمایہ دار صنعت کاروں ، جاگیرداروں اور وڈیروں کی کھالوں کے جوتے” انقلاب” کے بعد بنائیں گے تو کیا وہ غلط کہتے ہیں؟ ؟ اگر صنعتکاروں کا حکومتی ملی بھگت سے یہی رویہ رہا تو چینی لازماً میری گزشتہ سالوں کی معروضات کی طرح ساٹھ روپے کلو کی قیمت پر عام آدمی کے پاس پہنچے گی۔ کیونکہ مخصوص پالیسی کے تحت روزانہ بوری کی قیمت میں سو روپے تک کا اضافہ کیا جا رہا ہے اسی طرح سے دیکھا دیکھی دوسری اشیائے صرف کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگی ہیں پیا ز 45 روپے اور ٹماٹر80 روپے کلو تک بک رہا ہے ان دو سبزیوں کی قیمتوں کی بنیاد پر پاکستان کو دنیا کا چیمپئن قرار دے کر گولڈ میڈل دیا جانا چاہئے کہ پوری دنیا میں اتنی قیمت کہیں بھی نہ ہے ۔یہ ملک میں افرا تفری اور آپس میں سرپھٹول کے ذریعے خون کی ندیاں بہانے کے لئے حکومتی پلان اور اسکے حیلے بہانے ہیں اور تمام پلاننگ کہیں بیٹھے وہ کرپٹ افراد تیار کر رہے ہیں جنہوں نے اسلام آباد میں کوٹھیاں اور پلازے بنا رکھے ہیں اور اربوں روپے بنک بیلنس اندرونی اور بیرونی ممالک میں جمع کر رکھا ہے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کا صنعت کار اس پاک دھرتی کا قرض اتارے اشیائے صرف (چینی وغیرہ)کی قیمت کم از کم نصف کر دے مگر حکمرانوں کی پالیسی تو الیکشن میں دھاندلیوں کے لئے پری پول رگنگ کی طرح اپنی صفوں میں موجود صنعتکاروں بلکہ زیادہ بہتر ہو گا کہ کہا جائے ” چینی چوروں” کے تحفظ پر مبنی ہے جنہوں نے چینی ملوں میں نہیں بلکہ خفیہ گوداموں میں سٹاک کر رکھی ہے تاکہ مصنوعی قلت پیدا کر کے زیادہ سے زیادہ مال بٹورا جا سکے اور غریب عوام کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ بھی امسال نچوڑ ڈالا جائے ۔ ایسے ہی ظالم صنعتکاروں کے بارے میں کسی نے خوب کہا ہے کہ خونِ مزدور شرابوں میں ملا دیتے ہیں چینی کے بحران کی بے چینی کا واحد حل تو صرف اور صرف یہ ہے کہ تمام چینی تیار کرنے والی ملیں فوری طور پر منتخب مزدور یونینز کے نمائندوں کے حوالے کی جائیں ان نمائندوں سے ملوں کے مالکان کو مناسب منافع دینے کا وعدہ لے لیا جائے باقی منافع کی رقوم مزدوروں میں تقسیم کی جائیں۔ اس طرح سے مزدور جان توڑ محنت کر یں گے اور زیادہ منافع کی شرح کے لئے کو شاں رہیں گے۔ ہمارے ملک میں زرعی اور صنعتی شعبے ایک ہی گاڑی کے دو پہئے بن چکے ہیں خام مال زرعی زمینوں سے حاصل ہوتا ہے اور ملیں اسکی پروڈکٹس تیار کر کے مارکیٹ میں پھینک رہی ہیں اگر منتخب مزدور یونینز کا کنٹرو ل ہو جائے تو لازماً چینی اوردیگر مصنوعات کی قیمت ایک سال میں نصف رہ جائے اور ملک کے عوام اس سے بہتر طور پر مستفید ہونگے وگرنہ پانچ چھ درجن ملوں کے مالکان ہی تمام رقوم ہڑپ کر جاتے ہیں اور اوپر والوں کو حصہ دار بنا کر قرضے معاف کروا لینا تو انکے بائیں ہاتھ کا کا م ہے پچھلے سالوں میں بھی” مہنگی چینی کی بے چینی کا واحد حل مزدور یونینز کا کنٹرول” نامی کالم میں عرض کیا تھا کہ ” بے روز گار اور مہنگائی کے سانپ (جو کہ اب اژدھا بن چکا ہے )سے ڈسے ہوئے لوگ دوسرے ” احسن ذرائع ” چوری ڈ کیتی ، رہزنی اور اغوا برائے تاوان جیسے اقدام بھوک مٹانے کیلئے کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور درست بات تو یہ ہے کہ ناانصافی پر مبنی معاشرتی ماحول امن عامہ کو تباہ کرنے کیلئے کسی بھی وقت بم دھماکہ کر سکتا ہے جو کہ حملہ آور خود کش بمبار سے بھی بڑا ہو گا غرضیکہ ” سب نظام تلپٹ ہو کر رہ جائے گا!۔ڈاکٹر میاں احسان باری drihsanbari@yahoo.com