اپنے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران چین کے وزیر خارجہ نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان اپنے قبائلی علاقے میں مبینہ طور پر موجود شدت پسند تنظیم ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے خلاف کارروائی کے لیئے مؤثر اقدامات کرے۔ یہ مطالبہ کوئی پہلی بار نہیں کیا گیا بلکہ اس سے پہلے بھی چین کئی بار ایسا ہی مطالبہ کر چکا ہے لیکن ساتھ ہی وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ترکستان اسلامک موومنٹ کے خلاف کارروائی کے سلسلے میں پاکستان کے کردار کی تعریف بھی کر چکا ہے۔ چین جب بھی ایسا کوئی مطالبہ کرتا ہے تو اسکے ساتھ ہی ہمارے پڑوسی ملک کا میڈیا یہ پروپیگنڈہ شروع کر دیتا ہے کہ بھارت اور امریکا کے بعد اب چین بھی پاکستان سے نالاں نظر آتا ہے اور چین کے صوبہ سنکیانگ میں ہونے والے نسلی فسادات میں ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے ملوث ہونے کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے۔
اس بار بھی پڑوسی ملک بھارت میں میڈیا کے ذریعے پاک چین دوستی کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن چین نے اپنے حالیہ مطالبے کے صرف تین دن بعد ہی پاکستان کو جنوبی ایشیائی خطے کا سب سے اہم اور قابل اعتماد دوست قرار دیتے ہوئے یقین دہانی کروائی ہے کہ پاکستان کی خود مختاری اور معاشی ترقی کے لیئے ہر ممکن تعاون اور امداد فراہم کی جائے گی۔ چینی وزیر خارجہ نے اپنے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ دونوں ممالک اپنے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو مزید فروغ دینے کے علاوہ اپنی آزادی اور خود مختاری کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیئے ایک دوسرے کی مدد کریں۔بیجنگ کی جانب سے ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ بارے اپنے حالیہ مطالبے کے فوری بعد پاکستان کے حق میں ایسا بیان جاری کرنا یقینا اس پروپیگنڈے کا توڑ ہے کہ جس کی آڑ میں چین کو پاکستان سے متنفر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
Gwadar Bandargah
پاکستان اور چین مل کر گوادر بندرگاہ کے ذریعے عالمی منڈی تک رسائی حاصل کر رہے ہیں جس کا ہندوستان اور امریکا کو بہت دُکھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک پاک چین دوستی میں بدگمانیاں پیدا کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور چین کی طرف سے ایسے کسی بھی مطالبے کو اتنا اُچھالتے ہیں کہ جیسے اب ان دونوں ملکوں کی دوستی قصہ پارینہ بن گئی ہو۔ گزشتہ سال اگست کے شروع میں سنکیانگ میں جو پُرتشدد واقعات رونما ہوئے شاید یہ پہلا موقع تھا کہ چین نے ابتدائی تحقیق کے بعد اپنے قریبی حلیف پاکستان پر اُنگلی اٹھائی۔پاکستان پر اُنگلی اُٹھنے کی دیر تھی کہ پڑوسی ملک کا میڈیا اور حکمران پھٹ پڑے اور یہاں تک کہہ ڈالا کہ اس خطے میں تمام برائیوں کی جڑ پاکستان ہے لیکن یہ پروپیگنڈہ اُس وقت ناکام ہو گیا جب سنکیانگ واقعے کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد چین کی طرف سے یہ بیان دیا گیا کہ ان حملوں میں ملوث ملزمان کی پاکستان سے تربیت کے کوئی ثبوت نہیں ملے اور ان حملوں میں استعمال ہونے والا اسلحہ اور دہشت گرد دونوں مقامی ہیں۔
china pakistan
چین اور پاکستان یہ سمجھتے ہیں کہ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ دونوں ملکوں کے لیئے مساوی خطرہ ہے۔اس لیئے ہر بار پاکستان نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ایسٹ ترکمان اسلامک موومنٹ سمیت کسی بھی شدت پسند تنظیم کو اپنی سرزمین چین کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ ایک علیحدگی پسند جماعت ہے جو چین کے صوبہ سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے لیئے خود مختار ملک کی خواہاں ہے ۔ چین کا مؤقف ہے کہ اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے افراد کا ملٹری ہیڈ کوارٹر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہے جہاں وہ کئی برسوں سے چین کے خلاف مبینہ طور پر حملوں کی خفیہ منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ چین اس تشویش میں بھی مبتلا ہے کہ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے شدت پسند القاعدہ اور طالبان سے تربیت حاصل کرکے چین کے مسلمانوں کے اکثریت والے صوبے سنکیانگ میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہے ہیں۔ اس وقت چین کو جو تشویش لاحق ہے ایسی ہی تشویش میں ایران پہلے ہی مبتلا ہے کہ ایرانی بلوچستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث جنداللہ نامی گروہ کو پاکستان سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔
چین جہاں ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کو اپنی سلامتی کے لیئے خطرہ سمجھتا ہے وہاں ماضی میں پاکستان کی سیاسی مذہبی تنظیم جماعت اسلامی کی طرف سے سنکیانگ کے اوغر مسلمان باشندوں کی مدد پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کر چکا ہے لیکن اسکے بعد چین کی حکمراں کمیونسٹ پارٹی نے جماعت اسلامی کے وفد کو ایک ہفتہ کے لیئے چین کے دورے پر مدعو کیا ۔ اس دورے کے دوران اُس وقت کے جماعت اسلامی کے سربراہ قاضی حسین احمد نے نہ صرف زبانی چینی مسلمانوں کی حمایت سے عملاً دستبردار ہونے کا یقین دلایا بلکہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ عدم مداخلت کے ایک تحریری معاہدے پر دستخط بھی کیئے جبکہ چین روانگی سے قبل لاہور ایئرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے قاضی حسین احمد نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ ہم چین کی قیادت کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم اُن کی سالمیت چاہتے ہیں اور کسی علیحدگی پسند تحریک کی حمایت نہیں کرتے جبکہ تبت اور تائیوان پر بھی چین کا حق تسلیم کرتے ہیں اور اُن کے مؤقف کے ساتھ ہیں۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں چین سے دوستی چاہتی ہیں اور کوئی بھی جماعت اسکی مخالفت اور دوطرفہ تعلقات میں رکاوٹ نہیں ہے جبکہ حال ہی میں بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی یہ واضح کر چکے ہیں کہ چین کا استحکام اور امن پاکستان کے لیئے انتہائی اہم ہے اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے سلسلے میں دونوں ممالک خفیہ معلومات کا تبادلہ کر رہے ہیں۔
حالیہ چند برسوں کے دوران صوبہ سنکیانگ میں جو کچھ ہوا وہ قابل افسوس ہے لیکن اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ ان فسادات سے قبل پاکستان نے بعض ایسے اقدامات کئے ہیں جو ان غلط فہمیوں کو رفع کرنے میں بہت معاون ثابت ہوئے ہیں جو پاکستان میں چینی شدت پسندوں کی موجودگی کے حوالے سے چینی قیادت کے ذہنوں میں عرصے سے موجود تھے۔ پاکستان کی فوج نے 2003ء میں ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے سربراہ اور بانی حسن معصوم کو فاٹا میں ہلاک کیا۔ اس ہلاکت کے بعد عبدالحق ترکستانی مشرقی ترکستان تحریک کا لیڈر بن گیا لیکن اُسے بھی پاکستانی فورسز نے فروری 2011ء میں ہلاک کر دیا جبکہ دہشت گردی کے مشترکہ خطرے کے خلاف آپریشن اور انٹیلی جنس کے شعبہ میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون بھی جاری ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان چینی مطالبے پر درجن بھر شدت پسندوں کو گرفتار کرکے بھی اُس کے حوالے کر چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عبدالحق ترکستانی کی ہلاکت کے بعد عبدالشکور ترکستانی کو ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے اور یہی وہ شخص ہے جسے القاعدہ نے پاکستان میں اپنا آپریشنز چیف بھی بنا رکھا ہے۔