چین (جیوڈیسک) چینی حکومت کے تین بحری جہاز ہفتے کے روز متنازعہ جزائر کے گرد جاپان کے علاقائی پانیوں میں داخل ہو گئے تفصیلات کے مطابق یہ اقدام امریکہ کی جانب سے بیجنگ کو پس پردہ اس انتباہ کے چند گھنٹوں بعد سامنے آیا کہ وہ ٹوکیو کے کنٹرول کو چیلنج نہ کرے۔ ساحلی کوسٹ گارڈز کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ نگران کشتیاں صبح 9 بجے کے تھوڑی دیر بعد جزائر میں داخل ہوئیں جنہیں جاپان میں سینکاکو اور چین میں ڈیایوژ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ایک ساحلی محافظ کا کہنا تھا کہ بحری جہازوں کا سراغ جاپانی ساحلی کشتیوں نے لگایا جو مشرقی بحیرہ چین میں ٹوکیو کے زیر کنٹرول جزائر کے گرد گشت کر رہی تھیں ، تاہم بیجنگ اس کی ملکیت کا دعوی کرتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے جمعہ کے روز واشنگٹن میں جاپانی وزیر خارجہ فیومیوکشی دا کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ متنازعہ علاقہ جاپان کے زیر انتظام آتا ہے لہذا ٹوکیو کے ساتھ امریکی سکیورٹی معاہدہ کے تحت یہ محفوظ ہے۔ کلنٹن کا کہنا تھا کہ ہم کسی بھی یکطرفہ اقدام کی مخالفت کرتے ہیں جس سے جاپانی انتظامیہ کو نقصان پہنچایا جا رہا ہو۔ کلنٹن نے براہ راست بیجنگ کا حوالہ نہیں دیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ چین اور جاپان اس معاملے کو مذاکرات کے ذریعہ پرامن طریقے سے حل کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم کسی کی جانب سے ایسا کوئی قدم نہیں چاہتے جس سے کشیدگی میں اضافہ ہو یا صورتحال غلط رخ اختیار کر جائے جس سے امن وسلامتی اور اس خطے میں اقتصادی ترقی کو نقصان پہنچے گا۔ امریکہ کا اصرار ہے کہ وہ جزائر کی حتمی خود مختاری کے معاملے پر غیر جانبدار ہے۔ چین بارہا امریکی موقف پر تنقید کر چکا ہے اور وہ گیس کی دولت سے مالامال علاقے میں میری ٹائم نگران بحری جہاز بھیج رہا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس اقدام کا مقصد اس تاثر کو غلط ثابت کرنا ہے کہ جاپان کا علاقے پر موثر کنٹرول ہے۔