آج پاکستان حالت جنگ میں ہے کیونکہ امریکہ نے پچھلے نَو سالوں سے پاکستان پر غیر اعلانیہ جنگ پرپا کر رکھا ہے۔امریکہ یہ جنگ اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی ”ڈرون” کے ذریعے پورا کر رہا ہے۔ان حملوں کو امر یکی خفیہ ادارہ سی ائی اے کی شاخ specail Activities Division سر انجام دے رہے ہیں جو کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ٹینشن کا اصل منبع ہے۔
لفظ ڈرون (Drone) کا لفظی معنیٰ شہد کی مکھی (مادہ) ہے۔جو کہ مکھی کی طرح شور(buzz) کرنے والا بغیر پائیلٹ کا جہاز ہے جس کا کنٹرول زمین سے ہوتا ہے یا بہ الفاظِ دیگر اس کا پائیلٹ جہاز کے بجائے دور زمین پر بیٹھا ہوارہتا ہے۔اس کے پائیلٹ کو Combat System officer کہلاتا ہے جو کہ ریموٹ کنٹرول یا کمپیوٹر کے زریعے کاروائی کرتا ہے۔ یہ اس صدی کا جدید ترین اسلحہ ہے اور امریکہ کے پاس ہزاروں کے تعداد میں موجود ہیں۔اس طرح جہازوں کو Unmaned aerial vehicle (UAV) کہلاتا ہے جبکہ ڈرون ایک ”عام”سا نا م ہے۔یہ بہت دور سے ٹھیک نشانہ لگانے والا جنگی ٹیکنالوجی کہلاتا ہے۔
ڈرون کو اسرائیلی فضائیہ کی چیف ڈیزئینر ابراہم کیرم نے 1990 میں بنایا تھا،بعد میںامریکہ نے 1995 میں کیرم سے خرید کر امریکن جنگی بر ادری میں شامل کیا۔اس کا بنیادی مقصد جاسوسی کرنا ہے،اس میں جاسوسی کیئے جدید ترین اور اعلٰی قسم کے کیمرے نصب ہوتے ہیں۔عام طور پر یہ 27 فٹ لمبا،6.9 فٹ اونچا اور 48.7 فٹ چوڑا ہوتا ہے۔یہ 84 سے لیکر 135 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرسکتا ہے جبکہ 445 میل تک ما ر کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ 25000 فٹ کی بلندی پر پرواز کرتا ہے۔اس پر دو لیزر گائیڈڈ میزائیل نصب ہوسکتے ہیں۔
Aircraf drone attack
ڈرون کو اُن علاقوں میں کاروائی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو پائیلٹ والے جہازون یا زمین سے کاروائی کے لیئے خطرناک ہوتے ہیں۔امریکہ نے ڈرون کا سب سے پہلا سٹیشن ازبکستان میں اسمامہ بن لادن کے جاسوسی کے لیئے بنایا تھا۔اب تک اس کو پاکستان، افغانستان، بوسنیا، سربیا، عراق اور یمن کے خلاف استعمال کر چکے ہیں۔
امریکہ نے 2004 سے لیکر اب تک پاکستان کے قبائلی علاقوں پر 308 حملے کئے ہیں جن میں تقریبََا 2398 افراد مارے گئے ہیں۔دی نیو امریکن فائونڈیشن نے ایک رپورٹ مرتب کی ہے جسکے مطابق 2004 میں صدر جارج ڈبلیو بش نے پاکستانی علاقوں پر حملوں کی اجازت دی۔بش کے دور میں 45 حملے کئے گئے لیکن 2009 میںجب صدر اُبامہ نے عہدہ سنبھالا تو ڈرون حملوں کی تعداد میںبڑی حد تک اضافہ ہوا،پہلے 40 دنوں میں ایک حملہ ہوتا تھا جو 2011 کی وسط تک چار دنوں میں ایک حملے تک پہنچ گیا جسمیں 70% حملے شمالی وزیرِستان پر کئے گئے۔پاکستان پر حملوں میں سب سے خونی دن 17 دسمبر2010 تھاجسمیں 54 افراد مارے گئے۔2004 سے لیکر 2009 تک کل 96 حملے ہوئے جبکہ صرف 2010 میں132 حملے کئے گئے جو کہ پچھلے 6 سالوں سے ذیادہ ہیں۔امریکن اداروں کے رپورٹ کے مطابق فاٹا کے 90 اور پاکستان کے 75 فیصد عوام ڈرون حملوں کے خلاف ہیں جو کہ سراسر غلط ہے،پوری پاکستان کے 100% عوام ڈرون حملوں کے خلاف ہیں اور جو خلاف نہیں شائیدوہ حقیقت سے نا اشنا ہو۔امریکہ کے اس کُھلے عام دھشت گردی اور بدمعاشی پر این جی اوز اور ہیومن رائٹس کے ادارے خاموش ہیںحتٰی کہ بعض قومی ادارے اور میڈیا والے بھی دلالی کا ثبوت دے کر حقیقت کو چھپاتے ہیں۔
Drone Attacks Pakistan
انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق پاکستانی ادارے اپنے عوام کے سامنے اس کا پرزور تردید کرتے ہیں لیکن دوسرے طرف معلومات دینے کے علاوہ 21 اپریل 2011 تک شمسی ائیر بیس سے معاہدے کے تحت ان حملوں کو جائز بنایا جو کہ سلالہ پر حملے کے بعد تعلقات میں سرد مہری کی وجہ سے 150 امریکن کو ائیر بیس خالی کرنا پڑا۔4 اکتوبر 2008 کو واشنگٹن پوسٹ کے رپورٹ کے مطابق یہ حملے امریکہ اور پاکستان کے درمیان ایک خفیہ معاہدے کے تحت ہورہے ہیں۔18 فروری 2009 کو افغانستان سے 48 کلومیٹر دور شمسی ائیر بیس سے معروف صحافی سفر خان نے پرٹش نیوز پیپر ”دی ٹائمز”کو بتایا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ڈرون بیس سے اُٹھتے ہیں اور بیس سی ائی اے کے زیرِ استعمال ہے۔اج کل مذکورہ حملے افغانستان سے ہورہے ہیں۔یہ ہر وقت پاکستانی فضاء پر کھلے عام دھندناتے پھرتے ہیں جس سے ہماری سلامتی ، ڈیفینس اور خاص کر ایٹمی اثاثے ہر وقت خطرات کی منجھدار میں چکر پزیر ہے جو ملکی ڈیفینس اداروں کے لیئے لمحہ فکریہ ہے۔اگر پاکستان چاہے تو خفیہ ایگریمنٹس کو تھوڑ کر بے گناہ قتل عام کو روک سکتے ہیں یا ایران کی طرح اپنی ٹیکنالوجی سے بہ اسانی اس عمل کو ناکارہ بنا سکتے ہیں لیکن خونِ ناحق کی کاروباری بھیڑیوں کو دوسروں کی رونا ،فریاد اور غم کب یاد رہتا ہے،اگر رہتا ہے تو صرف اپنا عہدہ،حرام کی کمائی سے لیس بینک بیلنس اور ڈھیر ساری جائیداد۔ان کو پاک دامن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی عزت سے کھلواڑ کرنے سے کیا مطلب۔امریکہ نے اپنی خفیہ اداروں کی مدد سے پاکستان کے رگ رگ میں داخل ہو کر ان سے غیرت ،حمیّت اوراحساس کو ڈالرز،عہدوں اور لالچ کے بدلے خرید کر چکے ہیں۔
اگر ہماری ملک میں اسلامی نطام کے نفاذ کے بڑے بڑے عالی جاہ دعویدار امریکن گود میں جاکر ان سے ان کے مفادات کے مطابق وزیراعظم بنوانے کی رحم طلب کرتے ہیں تو خاک اسلام کا بول بالا ہوگا، اسلام تو چھوڑ انسان بھی سانس نہیں لے سکتا کیونکہ ہمارے لیڈرز صاحبان اسلام،ملکی مفادات اور تحفظات کا نام صرف اپنے دو دن کی خوشی اور چند ٹھکوں کی حصول کیلئے کرتے ہیں۔ تحریر: نعیم خان اتمانی