ڈینگی کے خوف نے کراچی کے تفریحی واٹرپارکس کو بھی ویران کردیا ہے۔ شہر میں اس وقت تقریبا دس وسیع و عریض واٹرپارکس ہیں جہاں ہر روزسینکڑوں شہری آتے جاتے ہیں جبکہ چھٹی کے دن یہ تعداد ڈبل ہوجاتی ہے لیکن جب سے حکومت نے ان پارکوں پر پابندی لگائی ہے یہاں ویرانیوں نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔ملک بھر میں ڈینگی کی وبا پھیلی ہوئی ہے ۔ ڈینگی کا مچھر صاف پانی میں پرورش پاتا ہے اور خدشہ ہے کہ واٹر پارکس ان مچھروں کی آماجگاہ ہوسکتے ہیں، لہذا حکومت نے احتیاطی تدابیر کے طور پر 60 روز تک تمام واٹر پارکس پر پابندی عائد کردی ہے ۔ صوبائی محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق پابندی کا اطلاق ہوٹلز، کلب، اسکولوں ، فارم ہاوسز اور گھروں میں واقع سوئمنگ پولز پر بھی ہوگا۔ پولیس کو اس سلسلے میں سختی سے عمل درآمد کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔کراچی میں تفریحی مقامات اور تفریح کے ذرائع کم ہونے کے سبب حالیہ سالوں میں واٹر پارکس نے عوام میں خاصی شہرت حاصل کی ہے۔ ان پارکس میں مختلف قسم کے جھولے اور جدید سوئمنگ پولز بنائے گئے ہیں جن کا اچھا خاصہ کرایہ ہوتا ہے لیکن واٹر پارکس کی سیر کرنے والوں کو اس سیر میں اتنا مزا آتا ہے کہ وہ پیسے کا منہ نہیں کرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان پارکس کی تعداد حالیہ سالوں میں مسلسل بڑھتی رہی ہے۔اس وقت شہر میں10 واٹر پارکس ہیں جن کے نام الہ دین ایموزمنٹ پارک، اپنا واٹر پارک، چیکو واٹر پارک، کوزی واٹر پارک، ڈریم ورلڈ ریزورٹ ، ہلکو واٹر پارک، سیمروز واٹر پارک، سن وے واٹر لیگون اور واٹر ورلڈ شامل ہیں۔ ان پارکوں سے یومیہ لاکھوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے مگر جب سے پابندی لگی ہے ، پارک ویران اور آمدنی صفر ہوگئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کچھ پارکوں کے مالکان اپنے ملازمین کو نوکری سے بھی فارغ بھی کرنے لگے ہیں۔کوزری واٹر پاک کے سپروائزر مہدی علی نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا ” سوئمنگ پول پر پابندی کی مدت دو ماہ ہے جبکہ یہی دو ماہ ہماری کمائی کے دن تھے اس کے بعد تو ویسے بھی سردیوں کا موسم شروع ہوجائے گا۔ اس طرح اب واٹر پارک مارچ میں ہی کھل سکیں گے۔ اس صورتحال میں انتظامیہ ملازمین کی بڑی تعداد کو فارغ کررہی ہے۔”وائس آف امریکہ کے استفسار پرمہدی علی نے مزید بتایا ” پارک کی یومیہ آمدنی80 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک ہے جبکہ چھٹیوں میں یہی آمدنی دو لاکھ تک پہنچ جاتی تھی۔ اس میں سے تیس فیصد ٹیکس حکومت کو جاتا ہے۔”مہدی علی کا کہنا ہے کہ سندھ میں ڈینگی پچھلے سال بھی پھیلا تھا لیکن اس وقت بھی سوئمنگ پول بند نہیں کیے گئے تھے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واٹر پارکس ڈینگی کے پھیلا کا سبب نہیں ہیں۔دوسری بات یہ کہ سندھ میں ویسے بھی ڈینگی اتنے بڑے پیمانے پر نہیں پھیلا جتنا پنجاب میں پھیلا ہے۔”ایک اور مشہور واٹر پارک ڈریم لینڈ ریزورٹ کے ڈائریکٹر سیلز طارق مشتاق نے وائس آف امریکہ کے نمائندے سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا ” پابندی سے ریزورٹ کی آمدنی بری طرح متاثر ہوئی ہے کیوں کہ لوگوں کی دلچسپی کا ذریعہ سوئمنگ پول ہی تھے۔ ریزوٹ میں یومیہ دوہزار افراد آتے تھے مگر اب یہ تعداد نصف سے بھی کم رہ گئی ہے۔ اب وہی لوگ یہاں آتے ہیں جو انڈور گیمز کھیلنا پسند کرتے ہیں۔”طارق مشتاق نے بتایا کہ ان کے ریزورٹ کا پانی نیچرل کھارا ہے جس میں ڈینگی پیدا نہیں ہوسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس سلسلے میں ڈاکٹروں سے ایک تحقیق بھی کرائی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے ریزورٹ کے پانی میں ڈینگی پیدا نہیں ہوسکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس سوئمنگ پول میں ٹائلز لگے ہوں وہاں بھی ڈینگی پیدا نہیں ہوتا ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے ریزورٹ میں روزانہ دو ہزار افراد وزٹ کرتے تھے لیکن اب یہ تعدادنصف رہ گئی ہے۔دوسری جانب واٹر پارک آنے والی ایک خاتون ڈاکٹر زبیدہ مسعود نے نمائندے کو بتایا ” زیادہ تر لوگوں کا واٹر پارک آنے کا بنیادی مقصد سوئمنگ کرنا ہی ہوتا ہے اگر پولز کو صبح کے وقت بھر کر اور شام کو خالی کرلیا جائے تو اس سے ڈینگی کا خطرہ نہیں رہے گا اور لوگوں کو تفریح بھی ملتی رہے گی۔”واٹر پارک میں موجود ایک بزرگ محمد ابراہیم نے بتایا ” سوئمنگ پولز پر پابندی کے باعث بچے اب انڈور گیمز ہی کھیل پاتے ہیں۔ میرے خیال میں واٹر پارکس ڈینگی مچھروں کی افزائش کا باعث بن رہے ہیں یا نہیں اس پر تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ عوام بیماری سے اور ملازمین بے روزگاری سے بچ سکیں اورساتھ ساتھ شہریوں کو ان پارکوں سے وابستہ تفریخ بھی میسر رہے۔”