کاش

وہ دالان میں مسکراہٹ کے پھول برساتی ہیلو کہتی ہوئی اندر عروج کے پاس جا بیٹھی اور ہمیشہ کی طرح احسان کو یوں محسوس ہوا جیسے کے کسی بھولے بھٹکے نے اسے محصور کر لیا ہو، پڑوس میں کوئی فنکشن تھا، بہت سارے لوگ جمع تھے، ابھی کھانے پینے کا آغاز نہیں ہوا تھا، اس نے دیکھا وہ سب چھپ کر لبنی کے ساتھ برابر والے کمرے میں سموسوں پر ہاتھ صاف کئے جا رہی ہیں، احسان کو دیکھ کر اوہ کی آواز کے ساتھ چلتا ہوا منہ وہیں رک گیا اور رخساروں میں خفیف، گداز گڑھے پڑھ گئے، اور وہ اس کے لیے بالکل اجنبی تھی پر اس اجنبیت میں عجیب سی واقفیت تھی۔

beautiful girl

beautiful girl

اس کی آنکھیں گہری نیلی تھیں اور بالوں کے خم میں سنہری سی چمک تھی، گماں ہوتا تھا کہ چاندنی راتوں میں سمندر کے کنارے بیٹھے ہیں اور کوئی انہونی سی بات ہوگئی ہے اور کوئی ماورا سا جذبہ دل میں دستک دے رہا ہے، پہلی ملاقات تھی پر ایسے لگتا تھا کہ وہ بڑے دنوں کے بعد اکھٹے ہوئے ہیں اور کوئی بھولی ہوئی سانولی سلونی بات یاد کر رہے ہیں۔

جمالی کی شادی کی تقریب میں دونوں کا پھر سامنا ہوا اسے محسوس ہوا وہ بڑے دنوں بعد گھر آیا ہے بہت پہلے ان کی گہری رفاقت رہی ہے بڑی دیر تک کی پہچان ہے، وہ ایک دوسرے کے کلر، پرفیوم، گیت، ہئیر اسٹائل، کھانے کا کال بیل کے ڈھنگ اور چڑوانے والے الفاظ جانتے ہیں، روٹھ کر ایک دوسرے کو منانے اور محبت کرنے کے انداز سے آشنا ہیں ، اس لے سے واقف ہیں جس پر بیک وقت سونی سی ہوجاتی ہے اور دنیا کے سارے غم عیاں ہوجاتے ہیں، پت جھڑ کی رتوں میں دل بھر آتا ہے، چہرے کتاب ہیں دل کی پہلیاں بوجھ لی جاتی ہیں آنکھیں زبان بن جاتی ہیں اور اپنے گھر جاکر بھی گمان ہوتا ہے کہ وہ نگاہیں ہماری نگراں ہیں جو کچھ کہہ رہی ہیں۔

وہ کہ کہیں جی نہ لگتا اور راتوں کو اس کا خیال سونے نہ دیتا پھر ایک دن وہ صدر میں کوئین چارٹ ہاؤس میں نظر آئی، سیاہ امبر بلاکٹ برقع پہنے، نقاب ناک تک لپٹے ہاتھ میں سی رنگ کا پر چھلاتی، اس کے قریب آکر احسان کے پاؤں جیسے زمین نے جکڑ لئے، وہ بھی ٹہر گئی نگاہ بھر کے دیکھا نظریں جھکا لیں، چہرہ گلنار ہوگیا پیار سے امڈتی ہوئی بولتی آنکھوں کے مفہوم لڑکیاں جلد سمھنے لگتی ہیں، اگلے روز وہ گھر آئی، جانے لگی تو کھڑکی کے قریب احسان نے اسے بلایا، سنو ادھر آؤ ایک چیز دکھاؤں۔

وہ چپ چاپ اس کے پہلو میں آگئی باہر کچھ بھی نہیں تھا، سامنے دکان کی منڈیز پر ایک بلی

cat

cat

بیٹھی خود کو چاٹ رہی تھی اور پارک میں بچے کھیل رہے تھے ، اسے یوں سراسیمہ اور الجھا ہوا دیکھ کر وہ ہنس پڑی، ہاتھ بڑھا کر چوکھٹ سے لپٹی بوگن ویلیا کے پتے نوچ لئے اور بہت آہستگی سے اس کا ہاتھ احسان کے ہاتھوں میں آگیا، احساسات پھوار کی طرح لطیف و جذبات جھونکوں ایسے سبک ہوتے ہیں، اس کے خیالوں سے راتیں مزیں تھیں، اور پھر کتنی تنہائی تھی

گھر میں تو بات کرنے کا موقع بھی کم ملتا، سب گھر والے موجود ہوں تو صرف دیکھنے کے، کہا بھی کیا جا سکتا ہے؟ آج گھر میں صرف عروج اور وہ تھے، کاش وہ سوچنے لگا، یہ عروج نہ ہوتی آج ہم دونوں جی بھر کے باتیں کرتے، اسے گلے لگا لیتا، کاش عروج مر گئی ہوتی لیکن عروج اپنے بھیا احسان کو بہت چاہتی تھی ایک ہی تو اس کا بڑا بھائی تھا۔

اتنا خوش اطوار شائستہ اور سلجھا ہوا، ڈھیروں چیزیں لا کر دیتا، دونوں کی چوائس کسی حد تک مشترک تھی، دونوں پکچر، فیشن، ڈسکو میوزک، نت نئے ملبوسات کے شوقین، چٹ پٹی اشیا کے دالدار، پڑھائی میں گزارے کے قابل شرارتوں میں تیز وہ غصے میں تو کبھی کبھار ہی آتا ورنہ ہلکی سی مسکراہٹ لبوں سے چپکی رہتی تھی۔

یہ تو سب اضافی خوبیاں تھیں، اپنے بھیا کو وہ کیوں نہ پیار کرتی بے غرض و بے لوث محبتیں صرف چند رشتوں میں ہی تو ہمارے پاس رہ گئی ہیں، ایک اسی کا عم زاد بھائی تھا۔

توقیر، اماں کو چہیتا ابو کا لاڈلا، تبھی تو اتنا سر چڑھا تھا لیکن بہت خوب اس سے کہتا تھا کہ میرا دل تم رکھ لو تمہارے پاس یہ حفاطت سے رہے گا، ان کا گھر گجرات میں تھا مگر جب بھی آتا ہنگامے جاگ اٹھتے، زندگی ایک میٹھی سی کسک بن انگڑائی لینے لگتی، وہ آنکھوں آنکھوں میں اس سے ہزاروں باتیں کہہ جاتا وہ یہ زبان سمجھنے لگی، اس کے سمجھنے کیلئے کوئی کورس نہیں کرنا پڑتا، اس کی کوئی مدت ڈپلوما، ڈگری نہیں ہوتی، جب نکھری نکھری سوندھی رتیں آجائیں تو یہ وصف خود بخود ظاہر ہونے لگتا ہے اور وہ آنکھوں پر جھک کر کہتا ہے کبھی تم نے بھی محسوس کیا ہے جو میں کرتا ہوں، کیا یہ آگ ادھر برسی ہے میں تو گھر میں کسی پل چین سے نہیں رہ سکا مری سونی ویران راتوں میں تم ماہتاب بن کے دمکنے لگی ہو، میں تمہیں چاہتا ہوں بہت سدا اس کو خوابیدہ احشا جکڑنے لگتا جیسے باڑ میں آنچل اچانک الجھ گیا ہو اور چھڑاتے چھڑاتے الجھتی گئی۔

اس کی دھڑکنیں وہ ان گنت رت جگے، بہبکی سانسیں اور سر گوشیاں سبھی نے توقیر کا روپ دھار لیا وہ بے چینی سے اس کا انتظار کرتی وہ آتا تو ظاہر نہ کر پاتی ، اس پردہ داری میں کتنی لذت تھی، وہ بہت کہتا کبھی تم بھی خط لکھ دیا کرو اور وہ دبی دبی مسکراہٹ لئے اسے تکا کرتی، جتنے دن رہتا گھر بھر میں ادھم مچا رہتا، اس کے چھوٹے بہن بھائی سبھی اس کے دیوانے تھے۔

کوئی کندھوں پر چڑھا بیٹھا ہے کوئی کمر پر لٹکا ہوا ہے کبھی پلنگوں پر کشتی ہو رہی ہے، تو کبھی آؤٹنگ یا پارٹی پر پروگرام بنتا، کبھی لانگ ڈرائیو کا اور کبھی گیدرنگ کا، گرمیوں کی ایک شب بجلی نہ تھی، پانی چھڑکنے کے بعد آنگن میں پلنگ بچھانے گئے تھے۔

girl thinking

girl thinking

بہت دیر وہ ستاروں کو تکتی رہی کیا کیا سوچتی رہی کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نظریں کہیں ہوتی ہیں اور ذہن کہیں ہوتا ہے۔

انسان ایک لمحے میں کتنی جگہوں پہ ہوتا ہے، محبت وقت اور مقام کی بندشوں سے آزاد کر دیا کرتی ہے۔ اسے سوئے ہوئے تھوڑی دیر ہوئی ہو گی، جانے کیا بجا تھا، چہرے پر کسی کی سانسوں کا احساس ہوا، وہ چیخنے کو تھی لیکن اس نے توقیر کو پہچان لیا، وہ نیچے بیٹھا پلنگ کی پائتی کے ساتھ لگے اسے تک رہا تھا۔ ارے شرر رہ گئی، کیا ہے؟ اس سے اور کچھ نہ کہا گیا سخت گھبرائی، ہائے کسی نے تمہیں دیکھ تو نہیں لیا۔
عروج ایک بات پوچھوں اس نے سرگوشی کی۔
بات کیا ہے صبح کیجئے گا، اس نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔
نہیں۔
وہ کانپنے لگی، امی نے کروٹ بدلی، اسے لگا دل سینہ توڑ کر باہر نکل جائے گا، ہائے وہ امی، پلیز جاؤ نہ اس نے ہاتھ جوڑ لئے، اس نے وہ ہاتھ تھام لئے، کیا تمہارے بھی وہی جذبات ہیں جو میرے ہیں، کیا تمہارا بھی وہی حال ہے، جو میرا بتاؤ ورنہ میں نہیں جائونگا۔ مانتے کیوں نہیں سخت بدنامی ہوگی اس کی سانسیں تیز ہوگئیں، ہاں یا ناں بتاؤ میں ابھی چلا جاتا ہوں۔ سمجھتے کیوں نہیں؟ الفاظ کیسے بہک رہے تھے، وہ بیٹھا رہا، اچھا ہاں ہاں۔۔۔۔۔۔ہاں ہاں۔۔۔۔

اور رات کی بات یاد کرکے سویرے وہ منہ چھپائے پھرتی تھی لیکن اس نے پکڑ لیا، چور کتنا ستایا ہے مجھے اور وہ دوپٹہ منہ میں ٹھونسے لال ہوگئی۔ گمان ہوا ایک بہ یک منزل پہ جا پہنچی ہے ان کی آنکھیں مند گئیں، ان دنوں وہ بھی آیا تھا اب ملنے کے معنی بدل گئے تھے۔

انھیں موقع نہیں ملا رہا تھا۔
امی شاپنگ کرنے گئی تھیں، باقی لوگ ٹی وی پہ کوئی کھیل دیکھ رہے تھے۔ وہ کچن میں گھس کر بہانے سے اسے بلانے لگا عروج ذرا ادھر آنا۔
احسان پاس ہی تھے کیسے جاتی۔
کیا کام ہے اس نے وہیں سے پوچھ لیا۔
آؤ تو۔۔۔۔
بھیا کیا سوچیں گے۔۔۔کیسے جاؤں۔۔۔۔اس نے سوچا کاش یہ احسان بھائی یہاں نہ ہوتے۔

تحریر: سلمیٰ صدیقی