Muslims offer prayers during Eid al-Adha at the historic Taj Mahal in the northern Indian city of Agra
عید الاضحی کا تیوہار ساری دنیا میں پورے جوش و خروش اور عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا۔ صاحب حیثیت مسلمانوں نے سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے بارگاہِ ایزدی میں جانوروں کی قربانی پیش کر کے یہ اعادہ کیا کہ اپنے نفس کی اصلاح اور دین کی فتح و سربلندی کے لیے ہم ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار رہیں گے، ہم اپنے انبیا، رسول، صحابہ، صالحین، سلف صالحین، اولیا و شہدا کے شعائر کو اختیار کریں گے، ہماری عبادت و ریاضت، معاشرت و معیشت صرف اور صرف رضائے الٰہی و خوشنودیٔ رب کے لیے ہوگی۔ اس کے ہر حکم پر ہم اپنا سر تسلیم خم کریں گے۔ دین کی اشاعت و تبلیغ اور اپنے مسلمان بھائی بہنوں کی غم گساری و بہی خواہی کے لیے ہم اپنی جان، مال، وقت، عہدہ و منصب غرض ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں گے۔ عید قرباں میں ہم نے صرف اعادہ ہی نہیں کیا بلکہ عملی طور پر پیش رفت بھی کی۔ ہم نے جانوروں کے گوشت سے عزیز و اقارب، غربا و مساکین کی ضیافت کی۔ جانوروں کے چمڑے ملی و فلاحی ادارے، مدارس اور اسلامی بیت المال میں جمع کر کے دین کی تبلیغ و اشاعت اور غریب بچوں کی تعلیم و تربیت میں بالواسطہ طور پر شریک ہوئے۔ ہمارے یہ اعمال اس بات کا ثبوت ہیں کہ دین کے تعلق سے ہماری حس اور ہمارے شعور اب بھی کسی حد تک بیدار ہیں۔ ہمارا دینی و ملی جذبہ فوت نہیں ہوا ہے۔ ہمیں اب بھی اللہ کے مقرب بندوں کے طریقوں سے محبت ہے….. لیکن افسوس کہ ہمارا یہ جذبہ دیرپا نہیں ہوتا۔ جس طرح رمضان المبارک کے بعد ہم نماز، روزہ و دیگر عبادات سے غافل ہو جاتے ہیں اسی طرح عید الاضحی کے بعد ہم قربانی کے اس جذبہ کو قائم نہیں رکھ پاتے۔
ہمارے دینی و ملی ادارے و مدارس کی انتہائی روشن و تابناک تاریخ رہی ہے۔ امت جب بھی مصیبت میں گرفتار ہوئی ہے تو انھیں دینی و ملی اداروں اور مدارس اسلامیہ نے قوم کی صحیح سمت میں رہنمائی کی ہے اور اسے مصیبت کے بھنور سے نکالا ہے۔ ان اداروں سے وابستہ ہمارے اسلاف نے نا قابل فراموش قربانیاں پیش کی ہیں جن کی تفصیلات تاریخ کی کتابوں میں سنہرے حروف میں محفوظ ہیں لیکن آج یہی ادارے حصول دنیا کی خاطر اپنے مقاصد کو بھول گئے ……. ایسا نہیں ہے کہ آج ان اداروں کے پاس کارکنان نہیں ہیں یا ان کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ عید الاضحی کے موقع پر مختلف علاقوں میں چرم قربانی کے حصول کے لیے دینی و ملی اداروں کے کارکنان و مدراس کے اساتذہ و طلبہ کی بھاگ دوڑ اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ ہمارے اندر جذبہ تو ہے لیکن وہ صحیح سمت میں نہیں ہے۔ چرم قربانی کے ذریعہ یقینا غریب بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جاتا ہے یا دیگر اہم مصارف میں ان سے حاصل ہونے والی رقوم استعمال میں لائی جاتی ہیں لیکن کہیں نہ کہیں اپنے ادارہ کی ترقی و شہرت کی نفسیات بھی کارفرما ہوتی ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ یہی جذبہ عید الاضحی کے بعد نظر نہیں آتا۔ امت میں اتحاد و اتفاق کے لیے یہ جدو جہد کیوں نہیں ہوتی؟ سماج میں پھیلی برائیوں ، عریانیت و فحاشت کے خاتمہ کے لیے ہم سڑکوں پر کیوں نہیں آتے؟ غریب بچیوں کی شادی کے لیے ہم کیمپ لگا کر چندے وصول کیوں نہیں کرتے؟ نوجوانوں میں صالح قدروں کے فروغ کے لیے ہم کوششیں کیوں نہیں کرتے؟ ؟؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ دین کے تعلق سے ہمارے اندر خلوص نہیں، ہماری نیتوں میں شفافیت نہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو عید قرباں کے بعد ہمارا یہ جذبہ سرد کیوں پڑ جاتا ہے؟
معتبر کچھ بھی نہیں زہد نہ تقویٰ نہ وفا ان کو جب تک تری تصدیق نہ حاصل ہو جائے یوں تو ہر چیز سے اونچا ہے محبت کا مقام شرط یہ ہے تری تائید بھی شامل ہو جائے
خلوص و للہیت کے بغیر دین کا کوئی عمل مقبول نہیں ہو سکتا اور عید الاضحی کا تو پیغام بھی یہی ہے ۔آج ہمیں زندگی کے ہر شعبہ میں ناکامی و نامرادی ہاتھ آ رہی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری نیتوں میں کھوٹ کی وجہ سے اللہ کی فتح و نصرت ہم سے روٹھ گئی ہو؟ عید الاضحی میں قربانی پیش کر کے ہم نے اللہ کے حضور جو عہد کیا ہے کاش وہ ہماری عملی زندگی میں بھی قائم و دائم رہ سکے۔ کاش دینی و ملی اداروں کا یہی جذبہ عید الاضحی کے بعد بھی اسی طرح قائم رہ سکے جیسا جرم قربانی کے حصول میں تھا۔