کرہ ارض پر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں اور دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث پانی کی شدید قلت ایک خوفناک صورتحال میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے دنیا میں پانی کے بڑھتے ہوئے مسئلے کے تقابل میں مسلسل واقع پذیر ہونے والی آبی قلت اور بقائے حیات کے لئے اسکی اشد اہمیت کے پیشِ نظر ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آئندہ جنگیں پانی کے ذخائر کے لئے ہوں گی۔پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ہندوستان نے دریائے بیاس،ستلج اور راوی کی نہروں کا پانی روک لیاجس سے ہندوستان اور پاکستان میں پانی کی تقسیم کا جھگڑا پیدا ہو گیا بالآخر 1960ء میںہندوستان اور پاکستان کے درمیان ”سندہ طاس کا معاہدئہ پانی ” طے ہوا جِس کی رو سے تین مشرقی دریائوں دریائے ستلج،دریائے بیاس اور دریائے راوی کا تمام پانی ہندوستان کو دے دیا گیا اور تین مغربی دریائوں دریائے چناب ،دریائے جہلم اور دریائے سندہ کا پانی پاکستان کے استعمال کے لئے طے ہوا جس کے استعمال کے لئے تین ڈیم منگلا،تربیلا اور چشمہ بنائے گئے اور اِن دریائوں اور ڈیموں کے پانی کو دریائے ستلج اور دریائے راوی کی نہروں کو پہنچانے کے لئے 8رابطہ نہریں بنائی گئیں۔دریائے جہلم ،چناب اور جہلم کا پانی اِن تین ڈیموں میںذخیرہ کرنے اور بعد ازاں چاروں صوبوں کی نہروں کے لئے ابھی تک استعمال ہو رہا ہے۔
سندہ طاس کے معاہدہ 1960ء کے بعد ڈیموں اور رابطہ نہروں کی تکمیل کے سبب ہندوستان نے 1970ء میں دریائے ستلج اور دریائے راوی کا پانی مکمل طور پر اپنے استعمال میں لانا شروع کر دیاجس سے پاکستان شدید آبی بحران کا شکار ہو گیااور پاکستان کے دریائوں میں دھول اُڑنے لگی اور اِس آبی بحران کی وجہ سے آب گاہوں کی رونقیں ماند پڑ گئیں۔آبی حیات اور انسانی زندگی بچانے کے لئے اِن دریائوں میں پانی آنا بے حد ضروری ہے لیکن افسوس کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک کو نہ تو آبی حیات کی زندگی سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی انسانی زندگیوں کی کوئی پرواہ۔اِس تمام تر صورتحال کے پیشِ نظر پاکستان کی آبی ضرورت اِس امر کی متقاضی ہے ہمیں دستیاب پانی کے ایک ایک قطرے کو زرعی اور اقتصادی استحکام کی خاطر بروئے کار لانے کے لئے فوری طور پر طویل المعیاد آبی منصوبے شروع کرنے چاہئیں لیکن بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بڑھکیں تو بہت ماری گئیں کہ ہم کالا باغ ڈیم اور دوسرے ڈیم ضرور بنائیں گے لیکن یہ بڑھکیں صرف اخباری بیانات کی حد تک رہیں۔
دراصل شائد ہمارے حکمران یہ نہیں جانتے کہ کالا باغ ڈیم صرف ایک ترقیاتی منصوبے کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ قومی سوچ، فکراور ترقی کی تڑپ کا امین ہو کر ایک جذبے میں ڈھل کر کبھی کسی صحافی کے قلم کی نوک سے صفحہء قرطاس کی زینت بنتا ہے اور کبھی کسی مدبر کے ذہن کی گہرائیوں سے فکر کی پھوار کی طرح پھوٹتا ہے،کہیں یہ کسی طالبِ علم کے لب پر ایک تمنا ہے اور کبھی مزدور کے دل سے نکلتی ایک آواز،کبھی یہ بندہء مزدور کے تیشہ چلاتے ہاتھوں میں نظر آتا ہے اور کہیں ایک انجینئر کے ماتھے پر پڑی تفکر کی سلوٹوں میں اُبھرتا ہے ۔یہ سوچ ،یہ فکر،یہ زینت ،یہ تمنا،یہ آواز اُسی نغمہ اللہ ہو کی آواز ہے جو تحریک پاکستان کے دوران ہماری روح کا ترانہ رہی اور جس کی دھن ایک تسبیح کے دانوں سے مرتب ہو کر لازوال ساز کی آواز میں ڈھل گئی ۔لیکن ہمارے حکمرانوں کو شائد ابھی تک اسکی عملی افادیت کا علم ہی نہیں ہو سکا اور اگر ہے تو معلوم نہیں کہ اسکی فوری تعمیر میں رکاوٹ کس چیز کی ہے۔دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے اور ہم ابھی اسی جھگڑے سے باہر نہیں نکلے کہ ” کالاباغ ڈیم بننا چاہئے/کالا باغ ڈیم نہیں بننا چاہئے” ۔پاکستان کے کروڑوں لوگ چیخ چلا رہے ہیں کہ انصاف دینے والوں کی حُکم عدولی ہو رہی ہے۔ اُن کروڑوں لوگوں کی اس پکار کو کوئی نہیں سُن رہا بلکہ اُن چند جاگیرداروں کی آواز حکمرانوں کے کانوں میں فوراً پڑتی ہے جو یہ کہ دیتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم نہیں بننا چاہئے اور انکی اس بات کو بنیاد بنا کر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ چاروں صوبوں کو اعتماد میں لینے کے بعد کالا باغ کی تعمیر شروع کی جائے گی۔
میں حکومتِ وقت سے صرف ایک سوال کرتا ہوں کہ کیا اگر پاکستان کی سالمیت خطرے میں ہو تو کوئی بھی اقدام کرنے سے پہلے عوام کو اعتماد میں لیا جائے گا یا حکومت اپنی مرضی سے اقدام اُٹھائے گی؟۔اگر حکومت اپنی مرضی سے فوری اقدام ضروری سمجھے گی تو حکومتِ وقت کو یہ جا ن لینا چاہئے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بغیر پاکستان کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی کیونکہ قحط ذدہ ملکوں کے لوگ اپنے ملک کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کرتے ہیں اور ہجرت پر مجبور ہو جاتے ہیں اور اگر پاکستان میںفوری طور پر نئے آبی ذخائر کی تعمیر یقینی نہ بنائی گئی تو چند سال تک یہاں کی عوام بھی پانی کی بوند کو ترسے گی کیونکہ ہمارا ہمسایہ ملک ہماری معیشت تباہ کرنے کے لئے مکمل منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے اور ہماری طرف آنے والے دریائوں کا پانی روکنے کے لئے منصوبے پایہء تکمیل تک پہنچا رہا ہے۔بہر حال میں حکومتِ وقت سے یہی اپیل کرتا ہوں کہ خدا راہمارے ملک کو بچائیں اور ملکی معیشت کو تباہی سے بچانے کے لئے کالا باغ ڈیم کی فوری تعمیر کا آغاز کر دیں۔دوسر ی جانب میں چاروں صوبوں کے عوام سے بھی ایک مئودبانہ گزارش کرتا ہوں کہ میرے پیارے پاکستان کو بچا سکتے ہیں تو بچا لیں کیونکہ اگر ہم آپس میں لڑتے رہے تو باہر سے کوئی بھی ہماری مدد کو نہیں آئے گا ۔یہ صوبائی تعصب ختم کرکے پاکستان کے مفاد کی خاطر یک جان ہو جائیں کیونکہ ہم جب تک ایک قوم کی شکل اختیار نہیں کریں گے تب تک ہمارے ملک کو بیک گئیر لگا رہے گا۔
Kalabagh Dam
کہتے ہیں ہمسائے کا منہ سرخ ہو تو بعض لوگ تھپڑ مار کر اپنا منہ سرخ کر لیتے ہیںپس ہمیں بھی اسی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا اور اپنے ہمسائے ملک چین کو مثال بناتے ہوئے اپنے پاکستان کو بھی ترقی کی راہوں پر گامزن کرنا ہوگا۔آئیے ہم سب مل کر پاکستان کو اُسی طرح ڈوبنے سے بچائیں جس طرح پاکستان کی عدلیہ اسکے لئے فکر مند ہے۔کالا باغ ڈیم کے حق میں دئیے جانے والے فیصلے سے عوام بے حد خوش ہے کیونکہ پاکستان عوام کا ہے نہ کہ چند سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کا،اس لئے عوام کی رائے اور عدلیہ کے فیصلے کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے اور اس فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے فی الفور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا آغاز کرنا چاہئے۔