سیاست دانوں کو اِس الیکشن سے فائدہ پہنچے یا نہ پہنچے مگر میرا عقیدہ ہے کہ میرے جانی دوست گلو شاہ کو موجودہ الیکشن ضرور رنگ لگائے گا ۔گلو شاہ پیدائشی بے روزگار ہے اِس کی مین وجہ یہ ہے کہ اُس سیدھے سادھے بھالو نما انسان کو کِسی کی خوش آمد کرنے کا فن اُس کی گھٹی میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔اِس کے علاوہ بھی گلو شاہ اَن گنت بُرائیوں سے لبریز ہے جیسا کہ اُس نے University of Lair سے جھوٹ بولنے کا ڈپلومہ تک حاصل کیا مگر بچارا اب تک ایک لائن بھی جھوٹ بولنے سے قاصر ہے۔
ایمانداری کا خمیر جتنا چاہیں اُس کے وجود سے نکال لیں،صاف گوئی میں وہ ملکہ رکھتا ہے کہ ویکیوم کلینر کی صفائی بھی شرما سی جائے۔اب اتنی بُرائیوں کے ہوتے بھلا کون اور کیونکر اُسے روزگار مہیا کرے۔دورِ حاضر میں شائد ہی ایسا کوئی کاروبار ہو جواِن تمام اچھائیوں کے بنا چل رہا ہو اب بھلا گلو شاہ کہاں سے یہ تمام خصوصیات لائے بس بچارا بے روزگاری کو ہی اپنی محبوبہ بنا ئے بیٹھا ہے۔ اِس کی یہ بے روزگار محبوبہ اتنی حاسد ہے کہ آج تک اُس کی شادی کِسی دخترِ نیک پروین سے ہونے نہیں دی۔
پرندوں کی ماند پلنے والا گلو شاہ میرے مشورے سے کافی خوش نظر آیا۔کیونکہ میں نے اُسے یقین دہانی کر وادی تھی کہ چھوٹے سیاست دان ہار کر بھی کبھی نہیں ہارتے ۔اُن کا مقصد تو ہر حال میں پورا ہو ہی جاتا ہے خواہ وہ جیتیں یا ہاریں۔اور مقصد کو پا لینا ہی سب سے بڑی جیت ہوتی ہے۔ میں ٹھہرا سچا ،جھوٹا ،کھٹا ،میٹھا ،بے و قوف سا انسان نہ جانے اُس نے میرے کہے پر فورا آمین کیوں کہہ دیا۔میں اِن دِنوں چھوٹے سیاست دانوں سے حسد کر رہا ہوں۔
چھوٹے سیاست دان وہ ہیں جو کچھ بڑے،اور بڑے،کچھ اور بڑے ،اور بڑوں کے بڑوں کیلے دِن رات محنت ِعظیم کرتے نظر آتے ہیں۔یہ چھوٹے سیاست دان کِسی نمبردار یا چوھدری سے خود کو کم تر ہر گز نہیں سمجھتے۔اِن چھوٹے سیاست دانوں کی حسنِ نظر بڑے سیاست دانوں کی نسبت کمال کی ہوتی ہے ۔یہ بڑوں کی طرح ایک ہی کرسی کو مرکزِ نگاہ بنانے کی بجائے سینکڑوں کرسیوں پر رال ٹپکاتے نظر آتے ہیں۔عمران خان کے جلسے سے بھی ایسے ہی چھوٹے سیاست دان کُرسیاں لے اُڑے تھے۔
یہ سیاست دان ضرور چھوٹے کہلاتے ہیں لیکن اُمیدوار بڑے ہی ہوتے ہیں۔انہیں ہر کام میں حرفاًمولا کہا جاتا ہے ۔کُرسیاں لگانی ،سجانی ،اُٹھانی ،سٹیج بنانا ،بگاڑنا،سنوارنا، کھلانا ،بوتلیں پلانا،آگے پیچھے گھومنا ،نعرے لگانا،اشتہار سجانا وغیرہ سب کچھ اِن چھوٹے سیاست دانوں کے کمالات ہیں۔انہیں چاولوں سے پرہیز ہے ڈاکٹروں نے کہہ رکھا ہے کہ سیاسی جلسوں کی بریانیوں میں سے صرف گوشت کی بوٹیاں ہی نوش فرمانی ہیں۔یہ لوٹے ہر گز نہیںہیں بس انسان دوست جزبات سے مالامال نظر آتے ہیں ۔جلسہ خواہ کِسی بھی پارٹی کا ہو یہ چھوٹے سیاستدان بڑی اُمیدیں لیے ہر جلسے کی رونق بننے کیلئے ہمہ تن تیار رہتے ہیں۔
Political Party
یہ چھوٹے بڑوں کی بڑی بڑی تصاویر کے نیچے بہت نیچے رائی کے دانے برابر اپنی چھوٹی سی تصویر لگوا کر خود کو بڑی بلا قسم کی توپ چیزسمجھتے ہیں۔جنہیں مسندِ اقتدار پر بکھرنا ہوتا ہے وہ تو نرم گدوں پر ائیر کنڈیشنڈ ماحول میں خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں مگر یہ چھوٹے سیاست دان ،بڑے بڑے اُمید وارکرائے کی گاڑیوں پر دیو ہیکل سپیکر لگا کر تیز ترین آواز میں سیاسی اور گرما گرم گانے چلا کر ساری ساری رات بزرگوں ،بچوں ،طالبعلم نوجوانوں،خواتین اور بیماروںکو رت جگا اور بے چین کر وا کے ووٹ لینے کی التجاء کر رہے ہوتے ہیں۔اِن کی عزت افزائی کیلئے انہیں سپورٹر کے خطاب سے نوازا گیا ہے۔
جِس طرح سیاست دان ووٹ لینے کے بعد اپنے منشور سے ہٹ جاتے ہیں، اُسے بھول جاتے ہیں عین اِسی طرح میں بھی اپنی گلو شاہ والی بات تو بھول ہی گیا ہوں ۔مگر میں سیاست دان تو ہوں نہیں جو واپس اپنی بات پر آ نہ سکوں ۔ میں نے گلو شاہ کو مشورہ دیا کہ تجھے انتہائی چالباز اور عمرو عیار بننا ہوگا۔ووٹ کِسی کو نہیں دینا مگر جے جے کار سب ہی پارٹیوں کی کرنا ہوگی۔
بس تواپنے چاچا کے پائوں پکڑ کر منت سماجت کر کے 11مئی تک اُن کی بیٹھک کِسی طرح اپنے قبضے میں کر لے ”۔گلو بولا!”مگر کیوں؟ آخر مجھے چاچا کی بیٹھک سے کیا کام ”میں نے کہا” آخر ہے نہ تو وہی بھالو انسان دیکھ میری بات ذرا غور سے سُن اور اُسے دماغ کے کِسی کونے میں سما جا۔الیکشن کا دور دورا ہے ہر جا صرف الیکشن ہی الیکشن ہیں۔بازاروں میں رنقیں لگ گئی ہیں۔سارے پاکستان کی دیواریں ،گلی محلے،چوراہے۔
چھتیں،سڑکیں سب رنگین ہو چکی ہیں ۔میں جِس پارٹی کو سپورٹ کر ہا ہوں تو اُس کو نہ کر یہ پارٹی ذرا کنجوس ٹائپ کی ہے میری کوئی مجبوری ہے مجھے چھوڑ، تو ایسے کر میری پارٹی کی مخالف پارٹی کو سپورٹ کر تجھے وہاں تک پہنچانا میرا کام ہے میں جانتا ہوں وہ کافی تگڑی پارٹی ہے۔مگر گلو شاہ کا سوال پھر سے وہی تھا”مگر میں چاچا کی بیٹھک لیکر کرونگا کیا؟”اِس بار میں اپنے غصے کوبڑی مشکل ضبط کر کے بولا”گلو میرے عزیز دوست تیرے چاچا کی بیٹھک کافی کشادہ ہے اور اُس کے سامنے جگہ بھی بہت وسعی ہے۔
پاگل انسان اِس بیٹھک کو تجھے 11مئی تک بس الیکشن کمپین آفس بنانا ہے۔تجھے اُن کی الیکشن مہم چلانے کیلئے وہاں سے کچھ فنڈ بھی دلوادوںگا اِس فنڈ کی مد میں ملنے والی کل رقم کا تجھے بس نصف حصہ ہی خرچ کرنا ہوگا اور آدھاSaving”گلوشاہ نے حیرانگی سے دوبارہ سوال کیا ”مگر رقم کا وہ آدھا حصہ کہاں اور کیسے خرچ کرنا ہوگا ؟” میں نے کہا” میرے دوست بوتلوں کے کریٹ ،لنگر ،ڈھول ڈھمکا،فلیکسیں،سگریٹ پانی وغیرہ بھی کیا وہ خود لاکر دیں گے تجھے۔
اور ہاں اصل بات تو میں بھول ہی گیا آفس کھولتے ہی سو ،ڈیڑھ سو پلاسٹک کی جو کرسیاں ملیں گی وہی تو اصل بونس ہوگا ظالم الیکشن نمٹتے ہی راتوں رات ساری کرسیاں آرپار۔وہ بڑے سیاست دان ہیں انہیں اِن چھوٹی کرسیوں سے کیا لینا ۔الیکشن کے بعدیہ چھوٹی کرسیاں چھوٹے سیاست دان ہی سنبھالیں گے۔
Muhmmad Ali Rana
تحریر : محمد علی رانا 0300-3535195 muhammadalirana26@yahoo.com