کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھائوں میں گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی عجب نہ تھا کہ میں بیگانہ الم ہو کر ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں انہی حسین فسانوں میں محو ہو رہتا پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں گھنیری زلفوں کے سایہ میں چھپ کے جی لیتا
مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ تو نہیں ترا غم ، تری جستجو بھی نہیں گزر رہی ہے کچھ اسطرح زندگی جیسے
زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں گلے گزر رہا ہوں کچھ انجانی راہگواروں سے تم میں ہمت ہے تو دنیا سے بغاوت کر دو ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو