کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔ اس کا شمار دنیا کے چند سب سے بڑے شہروں میں ہوتا ہے اور یہ صوبہ سندھ کا دارالحکومت بھی ہے۔ یہ شہر دریائے سندھ کے مغرب میں بحیرہ عرب کی شمالی ساحل پر واقع ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ بھی کراچی میں قائم ہے۔ کراچی 1947ء سے 1959ء تک پاکستان کا دارالحکومت بھی رہا۔ انگریزوں نے انیسویں صدی میں اس شہر کی تعمیر و ترقی کی بنیاد رکھیں۔ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے وقت کراچی کو نو آموز مملکت کا دارالحکومت منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے شہر میں لاکھوں مہاجرین آباد ہوئے۔ پاکستان کا دارالحکومت اور بین الاقوامی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے شہر میں صنعتی سرگرمیاں دیگر شہروں سے قبل شروع ہو گئیں۔ 1959ء میں پاکستان کا دار الحکومت اسلام آباد منتقل ہو گیا لیکن اس کے باوجود کراچی کی آبادی اور معیشت میں ترقی کی رفتار کم نہیں ہوئی۔
پاکستان بھر سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی آتے ہیں اور اس وجہ سے یہاں مختلف مذہبی، نسلی اور لسانی گروہ آباد ہیں۔ کراچی کو اسی وجہ سے منی پاکستان (Pakistan Mini ) کا نام دیا گیا ہے۔ ان گروہوں کی باہمی کشیدگی کی وجہ سے 80 اور 90 کی دہائیوں میں کراچی لسانی فسادات ، تشدد اور دہشت گردی کا شکار رہا۔ بگڑتے ہوئے حالات کو سنبھالنے کے لیے پاک فوج کو بھی کراچی میں مداخلت کرنا پڑی۔اس دور میں اس وقت کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے کراچی کے حالات سنوارنے میں اہم رول ادا کیا۔ انہوں نے کراچی کو ممکنہ حد تک اسلحے سے پاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد مشرف کا دورآیا جس میں خودکش حملے خوب پروان چڑھے مگر کراچی کے حالات اس وقت بھی اتنے خراب نہیں ہوئے تھے جتنے اب ہیں۔
Karachi Night
اسی کراچی کو روشنیوں کا شہر سمجھا جاتا تھا لیکن کچھ عرصہ سے شرپسند عناصر نے کراچی کے حالات بہت زیادہ خراب کردیے ہیں۔ پہلے یہاں کبھی کبھارڈکیتی اور دھماکے ہی کراچی کا حسن برباد کررہے تھے مگر اب تو ٹارگٹ کلنگ نے کراچی کی عوام کا دن کا سکون اوررات کا چین برباد کر دیا ہے۔ روزانہ کراچی میں اموات ہو رہی ہیں مگر ان کا سدباب کرنے کے لیے کوئی نہیں۔ اس وقت کراچی کے کونے کونے میں موت کا رقص ہورہا ہے کوئی ایریا ایسا نہیں جہاں پر ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوئی ہو۔ کسی کونہیں معلوم کے وہ صبح اپنے آفس ، سکول ،کالج یا پھر بازار جانے کے بعد واپس گھر پہنچ پائے گا بھی کہ نہیں ،کیا کراچی پاکستان کا حصہ نہیں ، صوبہ سندھ کے اس شہر پر حکومت پاکستان کا قانون نہیں چلتا ؟ کیا اس کو بھی شمالی علاقات جات میں شامل کر دیا گیا ہے ، کہاں گئی وہ ایم کیو ایم کی حکومت جس کے ناظم کو بیسٹ مئیر کا خطاب ملا تھا ، کیا اب یہاںایم کیو ایم کی حکومت نہیں۔
یہ ہیں وہ سوالات جو پاکستانی قوم کے ذہن میں ابھر رہے ہیں مگر وہ ان سوالات کے جواب کو ن دے ، اندھیر نگری اورچوپٹ راج والا سلسلہ ہے اس ملک میں یا پھر یہ سمجھ لیںکہ بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔ کراچی جس میں آدھی آدھی رات تک لوگ پارکوں اور سڑکوں پر چلتے پھرتے نظر آتے تھے اب وہ موت کے خوف سے گھر سے باہر نکلنا بھی پسند نہیں کرتے کیونکہ اپنی جان ہر ایک کو پیاری ہوتی ہے ۔ کوئٹہ کے حالات اور کراچی کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جتنے افراد کوئٹہ میں شہید ہوئے اس سے زیادہ کراچی میں لوگ مارے جارہے ہیں۔دشمنِ کراچی حکومت سندھ کو ہر روز لاشوں کا تحفہ دیتے ہیں مگر افسوس کہ حکومت سندھ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ اگر کوئٹہ میں گورنرراج لگانے سے امن قائم ہو سکتا ہے تو کراچی کے امن کے لیے عملی اقدام کیوں نہیں اٹھائے جا رہے۔کراچی جو روشنیوں کا شہر ہے اس کے چراغ کیوں گل کیے جارہے ہیں۔
Pakistan Opposition Leader
ان کی حفاظت کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے ، کون ہے جو ان کے دکھ کا مداوا کرے گا ، پاکستان کے دشمن نہیں چاہتے کہ پاکستان ترقی کرے اس لیے وہ پاکستان کے کونے کونے میں آگ لگانے میں مصروف ہیں اور ہمارے حکمران خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ جس طرح طاہر القادری کے لانگ مارچ پر سارے اپوزیشن لیڈرز رائے ونڈ میں ایک کال پر اکٹھے ہو سکتے ہیں تو پھر یہ سارے سیاستدان کراچی کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے اکٹھے کیوں نہیں بیٹھتے ، کیوں اس کا حل نہیں نکالتے، اگر حکمران نہیں سوچ سکتے تو پھر پاکستانی عوام کو خود سوچنا چاہیے اور غلامی کے زنجیریں توڑ کر اپنے دفاع کے لیے متحد ہونا چاہیے اور اسکے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی اپنا رول بڑی سنجیدگی اور سچائی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے تاکہ ہمارا کراچی پھر سے امن کا گہوارہ بن سکے۔