اسلام میں ظلم و جرم کے تین بنیادی طبقے ہوتے ہیں پہلا وہ طبقہ جو ظلم کر رہا ہوتا ہے۔ دوسرا وہ طبقہ جس پر ظلم ہو رہا ہو تا ہے۔ تیسرا وہ جو ظالم کی ظلم خلاف اور مظلوم کی حق میں جہادکے بجائے خاموش تماشائی بن کر معاشرے کی سکون و انسانیت کی جڑ کو بنیاد سے اکھاڑ کر پھینک دینے میں معاون ہوتے ہیں۔
میرا ایمان ہے کہ اسلام سے بڑھ کر زرا برابر بہترین نظریات و راہ حق کی بات کو وضاحت کرنے والا مذہب اس دنیا میں ہر گز مو جود نہیں ہے اسلام ہمیشہ انسانیت ، مساوات اور حق کی بات کرتاہے، انصاف و مسا وات کی نظام کی بات کرکے معاشرے کو عزت بخشتا ہے۔
ظالم سے مراد ہے وہ شخص جو اقتدار میں آ کر کے روئے زمین کے مخلوقات پہ ناجائز غالب رہنے کی کوششیں کرتا ہے ، اس مقصد میں کامیابی کیلے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر نے پڑتے ہیں تو تمام تر ہتھکنڈے غیر افلاقی نا انصافی کے ہوتے ہیں ظالم کا مقصد کسی کی جان ومال پر زبردستی غالب ہونا ہے جس کے لئے کئی طریقے ہو تے ہیں قتل و غارت کرنا یا کروانا ،مال ملکیت پر جبری قبضہ کرنا یا کروانا، نا انصافی و کر پشن کرنا، وعدہ خلافی کرنا، منافقت کرنا، یاحکومت اور وزارت میں کسی کے ساتھ نا انصافی،حق تلفی اور جانب درانہ رویہ کے ذریعے ظلم کرتا ہے غالب ہو نے کے لئے ظلم کرکے گناہ و مجرم بننا ہے۔
مظلوم وہ طبقہ ہے جس کے او پر ظالم ظلم کرتا ہے، ظالم جس کے ساتھ غیر اخلاقی،ناانصافی کرتا ہے، جس کی جان و مال پر زبردستی غالب ہوتا ہے جو قتل و غارت کا شکار ہو تاہے ،جس کی مال و ملکیت پر جبری قبضہ کیا جا رہا ہو تا ہے، جس کے نا انصافی و کرپشن ہوتا ہے، جس کے ساتھ وعدہ خلافی بھی کیا جاتا ہے، جس کے ساتھ منافقت کیا جاتاہے، یا حکمران طبقہ نا انصافی حق تلفی کرکے اس طبقے کو نقصان پہنچا تاہے۔ تیسرا وہ طبقہ جو سارا نظام دیکھ کر خاموش تماشائی کی کردار کرتا ہے نا مظلوم کے حق میں اور نہ ہی ظالم کے خلاف بغاوت و جہاد کرتا ہے نا ہی ظالم کی ظلم کو ر وکنے کیلئے کوئی قدم اٹھاتاہے۔ ہمیشہ اپنے دفا ع کرتا ہے مگر کسی کمزور کا ساتھ نہیں دیتا یہ طبقہ اکثر معاشرے کو تبائی کے سوا کچھ نہیں دیتا کسی اور کے ساتھ نا انصافی وظلم کو برداشت کر تا ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ یہی نا انصا فی و ظلم اس کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے۔ تین طبقے ظالم، مظلوم و تما شائی تینوں مجرم ہوتے ہیں۔
در حقیقت ظالم کی ظلم کے خلاف آواز بلند اور بغاوت کرنے سے ظلم ختم ہو جاتا ہے خاموشی سے ظالم کی تمنا پو ری ہو تی ہے تو اسکی حو صلہ افزائی ہو جاتی ہے وہ ظلم کو وسیع کر دیتا ہے۔
انصاف معاشرے میں انسانیت اور آزادی کی بات کرتا ہے، ایک کمزور کے ساتھ ظلم ہو تے نہیں دیکھنے دیتا تاکہ ایک کے بجائے دوسرے کے ساتھ نا ہو۔، اسلام جہا د کا بھی تو حکم دیتا ہے کہ اگر کہیں کو ئی آپ کے ساتھ یا آپ کے معا شرے میں کسی کمزاور فرد کے ساتھ ظلم و زیادتی ہوتاہے تو آپ کا فرض بنتا ہے کہ ظالم کے خلاف اور مظلوم کے حق میں جہاد کرو دیگر صورت آپ بھی مجرم ہونگے۔
پاکستان میں ظالم طبقہ سے مراد حکمران، جرنلیں، بیورو کریٹ، افسران وبا اثرات شخضیات۔
مظلوم سے مراد ہے کہ ایسا طبقہ جو کسی نا کسی ظلم و ستم یا انصانی کا شکار طبقہ جسے عام عوام کہہ سکتے ہیں جو کسی بھی زاویے سے ظلم کا شکار ہو جائے ۔
There’s No Law
مہنگائی، بدامنی، بے روزگاری، یا اسکی مال ملکیت جبری قبضہ یا قتل و غارت ، ناانصافی، بے گناہ الزامات کی سزا و گرفت ہو۔ تماشائی وہ طبقہ ہے جو جس پر کوئی ظلم نہیں ہو رہا ہوتا ہے جس کیلئے مہنگائی کی کوئی اہمیت نہیں،جس کو تحفظ ہے جسے روزگاری بھی ہے جس کی مال و ملکیت پر اسکی خود کی قبضہ و ملکیت ہے۔ جس کا کوئی قتل نہیں ہو رہا ہے جسے انصاف ملتا ہے۔ جو بغیر کسی گناہ کے زرا سزا نہیں پاتا ہے۔ جو ہمیشہ بے خوف اپنی زند گی کو سکون سے گزار رہے ہیں نا مہنگائی، بدامنی، بے روز گاری کے خلاف بولتے ہیں نا جہاد کرتے ہیں اپنے اعمال سے تعلق رکھ کر اپنی ز ند گی گزار رہے ہیں۔ صبح اٹھتے ہیں شام سو تے ہیں بے فکر ہوتے ہیں انھیں ظلم و ستم سے کو ئی سروکار نہیں ہوتا ہے جو صرف اپنے اور اپنوں کے لئیے جیتے ہیں جس میں صحافی طبقہ جو ظلم کے خلاف لکھ و بول نہیں، سیاست دان طبقہ جو اپنی باری کی انتظار میں حکمرانوں کی ظلم کے خلاف جہاد نہیں کر سکتے اور ان کا ہر قسم کی تعاون کر کے ساتھ دیتے ہیں، پولیس و افوج کا وہ طبقہ جو حکومتی ناجائز احکامات کو پورا کر کے غلط نظام کا ساتھی بن جاتے ہیں، وہ وکلاء جو ظالم کی دفاع کی کوشیش کرتے ہیں وہ طبقہ جو بااثر اور طاقت ور ہونے کے باوجود اپنی مفادات کی خاطر ظالم کا ساتھی اور مظلوم کے خلاف ہوتے ہیں ایسے لوگوں کی وجہ سے ایک خوشحال معاشرہ بدامنی لاقانونیت اور ظلم کی مرکز بن کر غریب طبقے کو دیمک کی طرح کھاجاتے ہیں ۔
مسلمانوں کیلئے اللہ کا حکم بھی ہے کہ جب تم کسی معاشرے میں کسی کمزور پر کسی طاقت ور کی ظلم و زیاد تی نا انصافی ہوتے دیکھ لیتے ہو تو تمھارا فرض بنتا ہے کہ تم ظالم کو ہاتھ سے رو کو،! اگر تم میں اتنی طاقت نہیں ہے تو زبان سے روکو ! اگر اتنی بھی نہیں تم سمجھتے ہو کہ تمھیں نقصان پہنچائے گا تواسکی ظلم و زیادتی کو اپنے دل میں برا تصور ضرور کرو۔ مگر دل میں برا تصور کرنے والے طبقے کو ایمان کی آخری درجے پر کہا گیا ہے۔
اس وقت پاکستان میں حکمرانیت و اختیارات پاکستان پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں۔ لیکن عجیب بات تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم، ن لیگ،ق لیگ، جے یو آئی ن ، جے یو آئی ن، اے این پی، سمیت تمام اتحادی جماعتیں بھی حکومت کی اس ناپاک نظام کی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جو مودہ حکومت کے تمام برائیوں، ظلم و ستم، ناانصافیوں، بد نظمیوں کے برابر کے شریک ہی حکومت کی ناپاک نظام اور ان کی نا اہلیت کی وجہ سے پورے ملک میں افرانفری پھیلی ہوئی ہے، حکومت کے ظلم کے خلاف چند ایک کے علاوہ کوئی کچھ لکھنے اور بولنے کو ہرگز تیار نہیں ہیں۔ ریمنڈڈیوس جیسا ناپاک امریکی سی آئی اے کے ایجنٹ جس کا اہلیان پاکستان کو پتہ تھا کہ پاکستان کی حالات خراب کرنے والی گروپ ایک سربراہ تھا مگر باعزت بری ہوگیا ہے چند ایک کے علاوہ باقی سب کے سب اس امریکی اشاروں کے غلام بن گئے کوئی اسلامی اقدام اٹھا کر ظلم کے خلاف مجاہدنہیں بنا اور اس نا پاک نظام کے ممبر بن کے عارضی دولت سمیٹ کر تجوریاں بھر گئے ۔
حکومت عوام پر مہنگائی، بدامنی، بے روزگاری، کرپشن کی شکل میں ظلم کر رہاہے ہیں مگر عوام خاموش تماشائی بن کے نظام کو برا بھلا تو کہہ رہے ہیں نظام چلانے والے کے خلاف خاموش رہ کر جرم میں برابر کے شریک ہو رہے ہیں ۔
در حقیقت ملک میں حالات ہمیں اک پل خاموش بیٹھنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتی ہے۔ ہم عوام کو اپنے ساتھ ہونے والی تمام نا انصافیوں کو مد نظر رکھنا ہوگا اور انکا احتساب لینا ہوگا۔ عوام نے ہتھیار نہیں بلکہ اپنی ووٹ کے ساتھ ان سے جنگ کا اعلان کر لینا چائیے۔ عوام کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ، سی این جی کی کمی،مہنگائی، کریشن، لا قانو نیت ،نا انصا فی ، بے روز گاری،غیر اخلاقی تمام برے سے بڑے اعمال کا احتساب کی تیا ری شروع کر لینی چائیے پیپلزپارٹی کو حکومت عوام نے دی تو چھین بھی عوام ہی سکتی ہے۔ کوئی آسمانی فرشتہ نہیں آ نے والا ہے جو عوام ہر حکومتی مسائل کو حل کریگا مگر اسلام کی کتاب میں حل جہاد ہے مطلب ظلم کے خلاف جدو جہد کرنا ہے۔ حکومت میں لوگ سب کے سب نا اہل ہیں کرپٹ ہیں ان سے تو قع رکھنا فضول ہے انکے خلاف جدو جہد کرنا فرض ہے۔
ملک میں ایسا نظام لانا ہوگا جس سے پورے ملک کی غریب مظلوم عوام کو کچھ نا کچھ تحفظ مل سکے۔
غریب کو اپنے ساتھ ہونے والے تمام نا انصافیوں کے لیئے متحد ہو کراسلامی نظریاتی نظام کی لانے اور نافذ کرنے کی تحریک چلانی ہوگی اور ایک نہ نعرہ ہو اللہ اکبر صرف اور صرف اللہ اکبر کا تاکہ اسلامی نظریات پورے خطے میں ایک اواز ہوکر گونجھ اٹھے اور پورے ملک میں سے ایک انسان ،ایک لیڈر سیدنا حضرت عمر فاروق کی طرح کا آگے لانا ہوگا جس کے دل میں خوف خدا ہو ،جو سچا بھی ہو،جس کی ایمانداری کی مثال موجودہ پاکستان میں کہیں بھی نہ ہو، جو ایک سیاست دان ہو ، جس کو سیاست میں عبادت کی تمنا ہو ، اور جو عوام کو اسلامی نظریات کی نگاہ سے دیکھے۔
حکمرانوں سے بہترین سوچ بہترین کردار اور بہترین نظریات کے مالک ڈاکٹر عبد القدیر خان ،عبد الستار ایدھی جیسے عظیم شخصیات کی کمی نہیں ہے پاکستان کے پاس عمران خان بھی تو موجود ہے جو وہ ایک بہادر دلیر لیڈر ہے موقف پر منافقت نہیں رکھتا ہے ۔
Fazal-ur-Rehman
دوسری طرف مولانا فضل الرحمٰن صاحب ہیں جو صاحب علم عالم دین بھی ہیں سنجیدہ انسان بھی ہیں تو انکی جماعت نے٤ سال سے حکومت کا ساتھ دے کر اسلامی قوانین و نظریات کو ٹھوس نقصان پہنچانے کے کوئی کسر نہیں چھوڑا ہے۔ اسلام ظالم کے خلاف بغاوت اور ظالم کے خلاف جہاد کا حکم دیتا ہے، مظلوم کا ساتھ دینے کا حکم ہے مگر صا حب علم مو لانا فضل الر حمٰن کو پورے ملک کی حالات نظر نہیں آتے ہیں کہ کیا کیا ناپاک نطام نافذ کیا گیا ہے شراب خور یذید نما حکمران طبقہ اقتدار میں آکر اللہ کے قوانین کے خلاف نا پاک نظام چلا رہے ہیں۔ مو لانا فضل الرحمٰن کو کم از کم اسلامی نظام کا خیال رکھنا چائیے ،
بحر حال علم والے بھی بے علم ہو نگے تو یہ نا پاک نظام رائج ہو گا عوام کو آ نکھیں کھول کر حکمرانوں و سیاست دانوں کے درمیان کی تفریق قائم کرنا چایئے اپنی دفاع کے لیے اب خود گھروں سے نکلنا ہوگا اور اسلامی نظریات کا خیال رکھنا ہے اسلامی نظریات میں ایک ضابطہ حیات ہے تو سارے مسائل کا حل بھی ہے ۔
ورنہ یہ قبائلی، سرداری،جاگیر داری، امیرانہ، سیاسی ناپاک نظام ملک کو تباہی کی طرف لے جائے گا کبھی فوجی اور کبھی نام نہاد ناپاک سیاسی حکومتیں حالات کو اپنی مرضی کے عین مطابق چلاتے اپنی سوئس کی تجوریا ں باری باری بھرتے جائیں گے اور عوام روٹی کپڑا و مکان کی خاطر تڑپتا ہی رہ جائیگا ۔
پاکستان سے یہ ناپاک نظام کے خاتمے تک چین سے ہر گز نہیں بیٹھنا ہے۔