کراچی (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے کراچی بد امنی کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلے کو سوا سال ہو گیا کراچی کے حالات بد سے بدتر ہو گئے ہیں۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں چار رکنی لارجر بنچ نیکراچی بد امنی کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے ایڈوکیٹ جنرل سندھ فتح ملک سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ آپ نے عدالتی حکم کے مطابق جواب داخل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ انہوں نے جو کل رپورٹ پیش کی تھی۔اس میں پیراوائز جواب شامل ہیں۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ فیصلے کے پیرا ایک سو تہتر کی آبزرویشن ہے کہ کراچی میں متحرک گروپوں کو سیاسی جماعتوں کی طرف سے مالی، سیاسی اور اخلاقی مدد حاصل ہے ۔ آپ نے اس کا جواب نہیں دیا آپ معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ ہم بے معنی ایکسرسائز کررہے ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ آپ مانتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کی مداخلت ہے تو لکھ کر دیں۔ فیصلے کو سوا سال ہو گیا۔ کراچی کے حالات بد سے بدتر ہو گئے ہیں۔ ہمیں جو آئین کہتا ہے ہم وہ آرڈر کریں آپ جو نہیں کرنا چاہتے نہ کریں۔
جسٹس خلجی عارف حسین کا کہنا تھا کہ فتح ملک صاحب آپ کا کام اذان دینا ہے نمازی آئیں یا نہ آئیں۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں ہمیں ہے حکم اذان لاالہ الااللہ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے حالات زبانی جمع خرچ سے ٹھیک نہیں ہونگے۔ جسٹس جواد نے اسفتسار کیا پولیس کو سیاسی وابستگی سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟ جسٹس خلجی عارف حسین کا کہنا تھا کہ ایک وزیر کہتا ہے کہ کراچی والے ہوشیار ہوجا! کچھ ہونے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کہہ دیں کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے مافیا زیادہ طاقتور ہے۔