کراچی بدامنی (جیوڈیسک) سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی کا مسئلہ ہے تو صدر پوری سڑک کیوں نہیں خرید لیتے۔زمینوں پر قبضہ منظم جرم بن چکا ہے۔عدالت نے چیف سیکریٹری سندھ اور ڈی جی رینجرز کو کل پیش ہونے کا حکم دیا ۔جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے کراچی بد امنی کیس کی سماعت کی ۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک نے صوبائی حکومت کی طرف سے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ رواں سال 1900 افراد قتل کیے گئے۔سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی کو ڈر لگتا ہے تو وہ عہدہ چھوڑ دیں۔
جسٹس امیرہانی مسلم کا کہنا تھا کہ اینٹی انکروچمنٹ سیل کیافسرخود زمینوں پرقبضہ کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا سچل گوٹھ،گلستان جوہر کا سروے کیا جائیتو 80 فیصد جرائم ختم ہوجائیں۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کے ارد گرد کے راستے کس قانون کے تحت بند کییگئے ہیں۔جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا چند افراد کی حفاظت کے لیے راستے بند کرنا کون سا قانون ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دئیے کہ بلاول ہاوس کے باہر 50فٹ بلند حفاظتی دیوار کھڑی کردی گئی ہے اور کتنی سیکیورٹی چاہیے ۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ ٹارگٹ کلنگ کاشکار 326 افراد کیلواحقین کومعاوضہ ادا کر دیا گیا ہے ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے متاثرین کو دس لاکھ معاوضہ دیا جارہا ہے ۔ کیا کراچی کے لوگوں کا خون اتنا ہی سستا ہے کہ انہیں معاوضہ دو لاکھ دیا جا رہا ہے ۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے بتایا کہ اس سال 90 پولیس افسر شہید ہوئے ۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب آپ کی نااہلی اور غفلت ہے۔عدالت عظمی کا کہنا تھا کہ 80 فیصد پولیس افسران نان پروفیشنل ہیں۔ ڈی جی رینجرز کی رپورٹ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت میں پیش کی۔ جس میں کہا گیا کہ کراچی میں کوئی نو گو ایریا نہیں ہے ۔ لارجر بینچ نے چیف سیکرٹری سندھ اور ڈی جی رینجرز سے عدالت میں پیش نہ ہونے پر وضاحت طلب کرلی۔عدالت عظمی نے پراسیکوٹر جنرل سندھ کو ہدایت کی کہ ٹارگٹ کلنگ کے زیر سماعت مقدمات کی پروگریس رپورٹ بھی پیش کی جائے ۔