وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ کراچی کے حالات پر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ معصوم شہریوں کے قتل عام کو روکنے کے لئے سندھ کی تمام قوتوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے۔ شہریوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے قاتلوں ، لٹیروں کو نشان عبرت بنائے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا۔ کراچی کے تین روزہ دورے کے دوسرے روز انہوں نے مختلف وفود سے ملاقاتیں کیں اور جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین سے اظہار تعزیت کے علاوہ متاثرہ خاندانوں کے بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں مکمل تعاون کی بھی یقین دہانی کرائی۔ وزیر اعلی پنجاب کا کہنا تھا کہ کراچی میں قیام امن کے بغیر پاکستان میں معاشی ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ وقت آگیا ہے کہ اس ملک کو نقصان پہنچانے والے ہر شخص کا خواہ وہ سیاست دان ہو، بیورو کریٹ ہو، جرنیل ہو یا جج اس کا کڑا احتساب کیا جائے ۔ علما کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران وزیر اعلی پنجاب کا کہنا تھا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہو کر کراچی میں قیام امن کے لئے حکومت سندھ اور وفاقی حکومت پر دبا ڈالنا چاہئے۔ کراچی کو بچائے بغیر پاکستان کے مستقبل کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ کراچی کے بدترین حالات کے باوجود بعض افراد قطعا پریشان نہیں بلکہ وہ ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ کراچی میں دہشت گردی، لوٹ مار، بے گناہ افراد کا قتل ایسے واقعات پر حکومت کو بلاتاخیر آپریشن شروع کرکے عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا چاہئے تھا لیکن حکمران محض زبانی کلامی دعوں یقین دہانیوں اور دھمکیوں سے عوام کو بہلاتے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پونے دو کروڑ کی آبادی کا یہ شہر دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی لپیٹ میں آتا چلا گیا۔ ایک طرف صورتحال یہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد ترک سکونت اور نقل مکانی پر مجبور ہوگئی تو دوسری طرف وزیراعظم یوسف گیلانی نے یہ کہہ کر عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے کہ ہم کراچی آپریشن میں ناکام نہیں ہوئے، ہم شہر قائد میں امن چاہتے ہیں اور سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر آپریشن کا حکم دیا ہے۔ یہ امر کسی وضاحت کا محتاج نہیں کہ اگر بروقت انسانی جسم کو لاحق کسی بیماری کی صحیح تشخیص کے بعد فوری علاج شروع نہ کیا جائے تومرض لاعلاج ہو کر مریض کو موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے۔ شہر قائد کے ساتھ بھی یہی صورتحال پیش آئی کہ حکمرانوں نے بروقت اس صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لینے اور اس کے پس پردہ عوامل کے اغراض و مقاصد کا ادراک کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ مرض کا علاج تو بڑی دور کی بات ہے۔ حالانکہ تمام ذمہ دار حلقوں کا پہلے دن سے ہی یہ موقف رہا ہے کہ کراچی کے امن و امن کو تباہ کرنے والوں کا احتساب بے گناہ شہریوں کے قتل عام کو روکنے ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی فرض ناشناسی، غفلت اور کوتاہی کو پیش نظر رکھتے ہوئے موثر اور نتیجہ خیز اقدامات میں تاخیر نہ کی جائے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ خود حکومتی صفوں میں موجود اور اعلی مناصب پر فائز بعض عناصر انسانی قتل و غارت کو ایک تفریح سمجھ کر تماشا دیکھنے میں لگے رہے ۔ وفاقی حکومت نے یہ موقف اختیار کئے رکھا کہ کراچی میں امن و امان ایک صوبائی مسئلہ اور حالات پر قابو پانا صوبائی حکومت کی ہی ذمہ داری ہے ۔حالانکہ ملک کے کسی بھی صوبے یا علاقے میں ایسی صورتحال پر قابو پانے میں وفاق کا تعاون اس کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔کراچی کے حالات نے نہ صرف سرمایہ کاری کی راہ میں زبردست رکاوٹیں کھڑی کی ہیں بلکہ ملک سے سرمائے کے فرار کا عمل بھی تیز تر ہو چکا ہے۔ کوئی بیرونی سرمایہ کار کراچی میں سرمایہ کاری کے لئے تیار نہیں۔ اب بھی حکومت جس تذبذب کا شکار ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ حکومت سندھ نے کراچی کی صورتحال پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ تبدیل کر دیا ہے ادھر بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق آپریشن شروع ہونے کے تیسرے روز ہی دم توڑتا نظر آرہا ہے۔ حکومت سندھ اغوا کاروں اور بھتہ خوروں کے خلاف کوئی موثر آپریشن شروع کرنے کے حق میں نہیں۔ حکومت ایک بار پھر قاتلوں کے سامنے سرنگوں دکھائی دیتی ہے۔ حکومت جانتی ہے کہ قاتل اور بھتہ خور کہاں چھپے بیٹھے ہیں اور ان کی ڈوریاں کون ہلا رہا ہے۔ تاجروں اور کارو باری برادری کے لئے کرا چی بالکل غیر محفوظ ہو گیا ہے گزشتہ تین سال کے دوران اربوں ڈالر بیرون ملک منتقل کر دیئے گئے۔ بھتہ خوروں کی وجہ سے کئی ٹرانسپورٹرز شہر چھوڑ کر چلے گئے۔ سینکڑوں کارخانے بند ہوچکے ہیں گزشتہ تین سال سے یہ رجحان بھی سامنے آیا ہے کہ حکومت کے ذمہ دار حلقے، سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ مختلف پراجیکٹس میں حصہ دار بنائے جانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انکار پر پروجیکٹ کو چلانا ناممکن بنا دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اقدام قومی و ملکی مفادات سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ سرمایہ کاری کی کمی نے لاکھوں افراد کو بے روزگار کر دیا ہے۔ ملک کو تقریبا 70فیصد ریونیو کراچی سے حاصل ہوتا تھا لیکن ہنگاموں، قتل و غارت گری اور لوٹ مار کے با عث ریونیو کی مد میں چھ ارب روپے سے زائد درآمدات میں اورسات ارب روپے سے زائد کا یومیہ نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ خوف و ہراس کے باعث بیرون ملک سے آنے والوں کی بڑی تعداد نے اپنی آمد منسوخ کر دی ہے، اندرون ملک بھی تاجر اب کراچی کا رخ نہیں کرتے۔ لیکن حکمران الٹی سیدھی باتوں سے اپنا دامن بچانا چاہتے ہیں وفاقی وزیر داخلہ کا یہ کہنا حقیقت سے فرار کی مثال ہے کہ ٹارگٹ کلنگ تو پنجاب میں بھی ہوتی ہے پھر صرف سندھ کے معاملات کو کیوں اچھالا جاتا ہے۔ حکمرانوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ کراچی میں بدا منی کے 100فیصدخاتمے کے بغیر پائیدار امن و امان کا قیام ممکن نہیں۔ اس کے بغیر ملک کا سب سے بڑا صنعتی و تجارتی مرکز دہشت گردی کی لپیٹ میں رہے گا اور یہ صورتحال ملک کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں ناقابل عبور رکاوٹ ثابت ہوگی۔ یہ پورے ملک کی بقا و سلامتی و خود مختاری کے تحفظ ا ور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کا مسئلہ ہے۔ اگر حکومت اس میں ناکام ہوتی ہے تو پھر اس کی طرف سے قیام امن کے لئے کی جانے والی کسی بھی کوشش کی کامیابی ناممکن ہے ۔حکومت اب سیاسی جوڑ توڑ میں لگی ہوئی ہے۔ وہ نہ کھل کر آپریشن کر رہی ہے، نہ قوم کو سچی بات بتا رہی ہے اور ہمیں اندیشہ ہے کہ یہی چیز حکومت کی بدنامی اور ناکامی کا باعث ثابت ہوگی۔