کراچی میں ایک ماہ کے دوران 300 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ سپریم کورٹ نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں حالیہ پر تشدد واقعات کے دوران عکس بند کیے گئے مناظر کی ویڈیو عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت عظمی کے پانچ رکنی ببنچ نے کراچی میں خونریز بدامنی پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کی سماعت پیر کو دوبارہ شروع کی۔ بینچ کے سربراہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے حکومت کو ہدایت کی کہ عدالت کو شہر میں امن و امان پر قابو پانے کے لیے کی گئی کارروائیوں کے دوران گرفتاریوں اور دیگر تفصیلات سے بھی آگاہ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت کراچی میں قتل و غارت کی اصل وجوہات جاننا چاہتی ہے۔ مزید برآں سماعت کے دوران مقدمے کی ایک فریق جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے وکیل افتخار گیلانی نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ صوبہ سندھ کے سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کو عدالت میں طلب کرکے کراچی کی صورت حال پر ان کا موقف معلوم کیا جائے۔ ذوالفقار مرزا نے گزشتہ ہفتے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں الزام لگایا تھا کہ کراچی میں ہونے والے پر تشدد واقعات میں شہر کی ایک با اثر جماعت متحدہ قومی موومنٹ ایم کیو ایم ملوث ہے، جب کہ ان کے بقول وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے بھی بد امنی پھیلانے والوں کے خلاف موثر کارروائی سے گریز کیا۔ ایم کیو ایم اور رحمن ملک نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کیا ہے، اور وفاقی وزیر داخلہ نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے درخواست کی ہے کہ ذوالفقار مرزا کے دعوں کی غیر جانبدار تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 24 جولائی سے 24 اگست کے دوران کراچی میں 306 افراد کو ہلاک کیا گیا، جب کہ اطلاعات کے مطابق رواں سال تشدد کے واقعات میں مارے گئے افراد کی تعداد لگ بھگ 1,400 ہو چکی ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے کراچی کی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد جاری کی گئی اپنی عبوری رپورٹ میں بدامنی کا ذمہ دار بڑی سیاسی جماعتوں کو ٹہرایا تھا۔ تنظیم کا کہنا تھا کہ شہر میں سرگرم جرائم پیشہ عناصر بھی اپنے عزائم کے تکمیل کے لیے اس صورت حال کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔