موجودہ حکومت اور برسراقتدار پارٹی جِسے عوام کی نمائندہ جماعت ہونے کا ہمیشہ سے گھمنڈ رہا ہے اور معاف کیجئے گااِن دنوں بھی یہ اِسی غروراور تکبر میں مبتلاہے جب کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اِس جماعت نے اپنے پونے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں عوامی خواہشات کا خون کرنے میں کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑی ہے اور کراچی سمیت ملک بھر میں ہونے والی دہشت گردی کے روک تھام کے لئے کوئی قابلِ قدر کارنامہ بھی انجام نہیں دے سکی ہے مگر اِس کے باوجود بھی آج جب کہ اِس کا اقتدار ختم ہونے میں صرف چند ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں ایسے میں اِس کے ایک وفاقی وزیر مذہبی اُمور سید خور شید احمد شاہ نے سکھر میں اخبارنویسوں سے کراچی میں ہونے والی بدامنی پر اپنی مدبرانہ گفتگوکے دوران یہ کہا ہے کہ ” کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف ایسا آپریشن ہونا چاہئے جو لوگوں کو صدیوں تک یاد رہے نہ صرف یاد رہے بلکہ اِس موقع پراُنہوں نے ذراگھومادینے والے انداز سے یہ بھی کہہ دیا کہ ”لیکن اِس سے قبل پیپلزپارٹی ، متحدہ قومی موومنٹ اور اے این پی سمیت تمام جماعتوں کواعتماد میں لیناچاہئے تاکہ پھر بعد میں کوئی شکو ہ کرتے ہوئے یہ نہ کہتاپھرے کہ ہمارے لوگ مارے جا رہے ہیں یا ہمارے کارکنوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ” یہ خورشید شاہ کے وہ فکرانگیز خیالات ہیں جو ہمارے ذہن میں اُس روز سے ہی کھٹک رہے ہیں جس روز سے ہم نے سُنے ہیں۔
یعنی تب ہی سے ذہن میں کئی ایسے انگنت سوالات جنم لے رہے ہیںا گر جنہیں ہم لکھ دیں تو شائد اِن کے تسلی جوابات کم ازکم ایک مرتبہ پھر برسراقتدار جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس ہوں اور نہ ہی خورشیداحمدشاہ ہی کچھ کہہ سکیں …کیوں کہ یہ بات ایک کھلی حقیقت ہے کہ ماضی میں جب نصراللہ بابر کی زیرنگرانی کراچی میں دہشت گردی اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف جو فوجی آپریشن کیا گیااُسے دیدہ و دانستہ طور پر شہر کراچی کے امن پسند اور شہرقائد کے غیور شہریوں کی جانب موڑدیاگیاتھا جو دیکھتے ہی دیکھتے کراچی میں ایک خاص طبقے اور مخصوص سیاسی جماعت کے کارکنوں اور ہمدردوں کے خلاف ہوتاچلاگیاتھااور اِس آپریشن میں اِس جماعت کے کارکنوں اور ہمدرروں کو آپریشن کی آڑ میں کئی ہزار نوجوانوں کوماردیاگیاتھااِس آپریشن کی یا د آج کئی سال گزرجانے کے بعد بھی ابھی تک اہلیان کراچی کے دل اور ذہنوں میں تازہ ہیں اِس فوجی آپریشن سے کراچی والوں کو غموں ، آہوں سسکیوں اور اپنے پیاروں کی جدائی اوریادوں کے سوااورکیا ملا…؟جو اَب ایک مرتبہ پھر اِسی جماعت کے ایک وفاقی وزیریہ کہہ رہے ہیں کہ کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف ایساآپریشن ہوناچاہئے جو لوگوں کو صدیوں تک یادرہے…!آج اگربات بلارنگ و نسل اور زبان و سیاست اور تہذیبوں کی تفریق کے بغیر کسی آپریشن کی ہے تو کسی حد تک یہ بات درست کہی جاسکتی ہے اور اگر ایسانہیں ہے ویساہی ہے جیساکہ ماضی میں ہواہے توپھر یہ بات کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے ۔
کیوںکہ یہ بھی سب ہی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر بیماری اور کراچی میں ہونے والی دہشت گردی اور بدامنی کا حل کسی بھی صورت میں آپریشن میں پوشیدہ نہیں ہوسکتاہے اور آج جو لوگ اپنی دانش میں کراچی میں آپریشن کی تجویز دے رہے ہیں اِنہیں یہ سوچناچاہئے کہ کراچی کا مسئلہ کوئی ایک فرد واحد کی بیماری کا مسئلہ نہیں ہے کہ ڈاکٹرز کی طرح اِس مریض کا آپریشن کردیں …مریض کی زندگی ہوئی تو خیر…اوراگربدقسمتی سے مریض مرگیاتو بس اللہ کو یہی منظور تھا…”کے لفظ کہہ کر ڈاکٹرزاپنی جان بچالیں آج کراچی میں جو لوگ آپریشن کی بات کررہے ہیں اِنہیں سوچناچاہئے کہ کراچی میں آپریشن سے قبل ملک کے اُن علاقوں میں ضرورآپریشن کیا جائے جہاں اسلحہ ساز فیکٹریاں قائم ہیں اور جن علاقوں میں اسلحہ تیارکئے جاتے ہیں جہاں استعمال کے برتنوں سے زیادہ اور پہنے کے کپڑوں سے بھی کہیں زیادہ مرد کی شان اور آن کے نعرے کی وجہ سے ہر گھر میں مہلک ترین ہتھیارتیار موجود ہ ہیں اورجن علاقوں کے لوگوں کا زریعہ معاش ہی ناجائز اسلحے کی خریدوفروخت ہے اور جن علاقوں کے لوگ غیر قانونی طور پر کراچی میں اسلحے کی ترسیل کے اصل ذمہ دار ہیں پہلے ملک کے اُن علاقوں میں اسلحے سے پاک پاکستان کے نام پر آپریشن کیاجائے تو پھر بعد میںیہ سوچاجائے کہ اَب کہاں آپریشن کرنا ہے۔
چونکہ کراچی ملک کا معاشی حب ہے اور اِس لحاظ سے یہ پاکستان کی شہ رگ بھی ہے ماضی کی طرح جلدبازی میں شروع کئے جانے والے پھر کسی آپریشن کی وجہ سے اِس معاشی حب کی کوئی ایک رگ دانستہ کاٹنے کاکوئی سامان کیاگیا تو کہیں ایسانہ ہوکہ اِس بار اِس شہر کی حالت سنبھلنی مشکل ہوجائے اور وہ کچھ ہوجائے جس کا گمان بھی نہ کیا جاسکے لہذاآج ضرورت اِس امر کی ہے کہ کراچی میں دہشت گردی اور بدامنی کا حل کسی آپریشن سے نکالنے کے بجائے افہا م و تفہیم اور عفوردرگزر سے نکالاجائے اور اگر پھر بھی کچھ لوگ آنکھوں پر تعصب کی عینک چڑھاکر کراچی کے مسئلے کا حل آپریشن سے نکالنے کے لئے بضد ہیں تو پھر اِن سے متعلق صرف یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ اِس شہر اور ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔
آج اگر ہم حقیقت کی آنکھ سے دیکھیں توویسے بھی ہمارے یہاں اَب تک لگ بھگ کوئی تین سیاسی آپریشنز ہوچکے ہیں جن میں اول کراچی کا فوجی آپریشن ، لال مسجد آپریشن اور موجودہ حالات میں جاری رہنے والا سوات کا آپریشن ہے جن کے نتائج بھی آج ہم سب ہی کے سامنے ہیں کہ اِن تینوں آپریشنز میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایاہے …؟اَب ویسے تویہ بات کسی بھی پاکستانی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ اِن دنوں مجموعی طور پر میرے ملک میں دہشت گردوں کا راج ہے، جن کالاقانونیت اور قتل وغارت گری کا آسیب سر چڑھ کر بول رہاہے، پورے ملک میں دہشت گردوں نے خودکش حملوںاور اپنی انسانیت سُوز کارروائیوں سے معصوم انسانوں کو موت کی وادی میں دھکیل کرقبر کی آغوش میں سُلانے کی اپنی ناپاک سرگرمیاں تیزکررکھی ہیں۔
Karachi Operation
دہشت گرد اپنی سنگدلانہ کارروائیاں کرکے حکومت کو اپنی طاقت اور عزم کا اظہارکرکے اِسے منہ چڑھا رہے ہیں اور دوسری طرح حکومت ہے کہ حکومتی رٹ کہیں نظرنہیں آرہی ہے اورایسالگ رہا ہے کہ جیسے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور اِس کے اہلکار مصالحتوں اور مخمصوں میں مبتلاہونے کی وجہ سے مجسمہ بنے ہوئے ہیں جن کی اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رہتی ہیں اِن کی خود اپنی سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ یہ مصالحتوں اور مخمصوں کے بنکرز سے کس طرح سے نکلیں اوردہشت گردی اورلاقانونیت کا چلہ کرنے والوں کا سر تن سے جدا کرکے ملک کوامن و آشتی کا گہوارہ بنا دیں۔