عیدِ قرباں دنیا بھر کے مسلمانو ں کے لیے خوشیوں اور ذائقے دار کھانوں کا دوسرا نام ہے۔ لیکن کراچی کے باسیوں کے لیے یہ عید ہر برس خوشیوں کے ساتھ ساتھ ایک پریشانی بھی لاتی ہے۔ یہ پریشانی کہ قربانی کے جانور کی کھال کو حق دار تک کس طرح پہنچایا جائے؟
ہر برس حکومت کی جانب سے عیدالاضحی کی آمد سے قبل شہر میں دفعہ 144 نافذ کردی جاتی ہے جس کے تحت کھالیں جمع کرنے پر پابندی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہر سال رفاہی تنظیموں اور امدادی اداروں کی جانب سے کھالیں چھینے جانے یا مخصوص علاقوں میں داخلے کی اجازت نہ ملنے کی شکایات سننے میں آتی ہیں۔
محکمہ داخلہ سندھ کے مشیر شرف الدین میمن کہتے ہیں کہ قربانی کے جانور کی کھال سے حاصل ہونے والی رقم امدادی تنظیموں کے لیے ‘لائف لائن’ کی حیثیت رکھتی ہے اور ہر تنظیم اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ ان کے بقول کھالیں اکٹھی کرنے کے کام میں امدادی اور مذہبی اداروں کیساتھ ساتھ اب وہ سیاسی جماعتیں بھی شامل ہوگئی ہیں جن کے اپنے بھی رفاہی ادارے کام کر رہے ہیں۔
کھالوں کی خرید و فروخت سے منسلک ایک تاجر عبدالحامد کے مطابق بکرے کی کھال 1000 سے 1500 روپے جب کہ گائے کی کھال جسے عرفِ عام میں چمڑا کہا جاتا ہے – 4000 سے 5000 روپے تک فروخت ہوتی ہے۔ اور ایک ایسے شہر میں جہاں عیدِ قرباں کی تین دنوں میں لاکھوں کی تعداد میں جانور قربان کیے جاتے ہوں، وہاں اس کھال کے حصول کے لیے اداروں اور تنظیموں کی باہم محاذ آرائی بخوبی سمجھ آتی ہے۔
ہر گزرتے برس کے ساتھ کراچی میں ایدھی فائونڈیشن کو ملنے والی کھالوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔