دنیا میں کسی بھی ملک کو لے لیجئے وہ اپنے ملک کے خارجی معاملات میں کبھی کسی اور ملک کا دبائو برداشت نہیں کرتا۔ حالانکہ مغربی دنیا کا دبائو اتنا ہوتا ہے کہ بس اللہ کی پناہ، خارجہ پالیسی کے سلسلہ میں کسی اور ملک کے دبائو کو قبول نہیں کیا جاتا ہے ۔ ایران، شام، سوڈان وینیزویلا اور شمالی کوریا کی مثالیں تاریخ میں درج ہے کہ جنہوں نے مختلف مواقع پر امریکہ اور دوسرے ممالک کے دبائو کے آگے کبھی گھٹنے نہیں ٹیکے۔ لیکن پاک و ہند اور دوسرے ملکوں میں اب بھی اس معاملے میں آزاد نظر نہیں آتا، ہمارے ملک کو آزاد ہوئے بھی لگ بھگ ٦٥ سال ہو گئے ہیں لیکن آج تک ہماری خارجہ پالیسی لگتا ہے کہ آزاد نہیں ہے۔عام حالات میں کچھ صورتحال کو دیکھتے ہوئے کچھ اعلان کر دیا جاتا ہے لیکن اس پالیسی میں تبدیلی یا پھر موقف بدل دیا جاتا ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہندوستان پاکستان پر الزامات لگاتا ہے اور پھر پاکستان ہندوستان پر الزامات عائد کرتا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں دونوں ملکوں کے لوگ ملوث ہوتے ہیں، مگر جب مذاکرات کا دور شروع ہوتا ہے تو دونوں ملکوں کی خارجہ پالیسی میں نرمی دکھائی دیتا ہے۔ اللہ کرے کہ دونوں ممالک میں اعتماد کی فضا بحال ہو جائے اور امن کی آشا کے سپنے دیکھنے والوں کی مرادیں بَر آ جائیں ۔
گذشتہ دنوں پاک و ہند کے معتمدین خارجہ کے مذاکرات نئی دہلی میں منعقد ہوئے جو ہمیشہ ہی کی طرح روایتی ثابت ہوئے۔ مذاکرات کے موضوعات اور پھر میڈیا بریفنگ میں وہی سب کچھ بتایا گیا جو ہمیشہ بتایا جاتا رہا ہے، دہشت گردی اور بحالی اعتماد کے اقدامات پر تو دونوں ملکوں میں اتفاق دیکھنے میں آیا ……جب پاکستان نے داخلی معاملات پر ہندوستان کے ملوث ہونے کے شواہد پیش کیئے تو پھر تنائو کی کیفیت پیدا ہوئی۔ اور یہ سلسلہ پتہ نہیں کب تک جاری رہے گا۔
India and Pakistan Flags
ہمارے ملک کی سیاست کو دیکھ لیں تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تمام ہی سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف زہر افشانی کرتی رہتی ہیں اور ایک دوسرے کو اخلاق سے مبّرا ہوکر لان تان کرتے ہیں ۔ اور یہ سلسلہ روز افزوں ہی میڈیا پر جاری و ساری رہتا ہے۔ مگر جب یہ لوگ آپس میں ملتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ان سے اچھا کوئی دوست ہو ہی نہیں سکتا۔ ملکی معاملات کی باتیں، آپس کی پیار محبت کی باتیں، اور پھر میڈیا بریفنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنے کی باتیں، مگر نہ جانے پھر کیا ہو جاتا ہے کہ دوبارہ دشمنی کی بارِ گراں نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔
اب دیکھئے کہ ہندوستان اور ایران کے مراسم بہت دیرینہ ہیں جب ہندوستان نے ایران سے تیل کی درآمدات میں کمی کا فیصلہ کیا وہ اس لئے کہ امریکہ کی ناراضگی سے بچا جا سکے اور یوں ہندوستان نے صدیوں کے اس دوست سے بھی منہ موڑنا گوارا کر لیا ۔ اسی طرح پاک و ہند کے مذاکرات پر بھی ایسے ہی قدغن نظر آتے ہیں اور اسی لئے میں شہود عالم آفاقی کے اس مصرعہ کو یہاں درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو کہ اس مضمون کا نام بھی ہے:
کرتے ہیں دشمنی اور ملاتے ہیں ہاتھ بھی!
ہمارے ملک میں داخلی سلسلہ بہت دگرگوں معلوم ہوتا ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں کچھ بھی ہو جائے نہ ہی اس کے ملزم پکڑے جاتے ہیں اور اگر پکڑ لیئے جائیں تو انہیں سزا ہی نہیں ہوتی۔ یادِ ماضی عذاب ہے یارو! کیونکہ میں ایک واقعہ یاد دلانے جا رہا ہوں کہ جب پی این ایس بحریہ کے مہران بیس پر چھ دہشت گردوں نے سترہ گھنٹے قبضہ کئے رکھا اور کئی جوان اس دہشت گردی کے بھینٹ چڑھ گئے ۔ ان کا مقصد تو یہ تھا کہ پاکستان کی دفاعی قوت کو کمزور ثابت کیا جائے، اور اس مقصد میں وہ ظاہر ہے کہ ناکام بھی نہیں ہوئے۔ آخر ان کا کیا ہوا کچھ پکڑے گئے تھے اور کچھ بھاگ گئے تھے جو پکڑے گئے ان کے بارے میں ہماری عوام کو کچھ نہیں معلوم کہ ان کے ساتھ کیا ہوا سزائیں ہوئیں یا عدالتوں سے بری ہو گئے۔ ہماری عوام تو اتنی سادہ لوح ہے کہ ہر زخم وقت کے ساتھ بھلا دیتے ہیں اور پھر نئے سرے سے زندگی کی چمک دھمک میں گم ہو جاتے ہیں۔
Terrorism
بار بار یہ کہا جاتا رہا ہے کہ دہشت گردی کا عفریت بہت بڑی طاقت بن کر سامنے ہے اس کا مقابلہ سب سیاستدانوں، تمام اداروں، اور سب سے بڑھ کر پوری قوم کو متحد ہو کر کردار ادا کرنا ہوگا مگر وہ دن کب آئے گا اس کا انتظار سب کو ہے کہ ہم سب کب متحد ہونگے اور کب ان تمام عفریتوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔
یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ پاک و ہند کے عوام کے لئے یہ بہت بے چینی اور بے قراری کی بات ہے کیونکہ انہیں کبھی بھی کسی دیرینہ مسلئے کا حل نظر نہیں آتا۔ تاہم یہ اٹل حقیقت ہے کہ دونوں ملکوں کے آبائو اجداد ، رشتے دار دونوں ملکوں میں آباد ہیں اس لئے جب دوستی کی بات چلتی ہے ، اور امن کی آشا پھیلنے لگتی ہے تو دونوں ملکوں کے عوام بہت خوشی کا اظہار کرتے ہیں وہ اس لئے کہ انہیں اپنے پیاروں سے ملنے کی راہ ہموار ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ خدا کرے کے دونوں ملکوں کے عوام کیلئے امن کی آشا کارآمد راستہ تلاش کر سکیں۔ اور سرحدوں پر نرمی ہو تاکہ آسانی سے وہ آ جا سکیں جس طرح تجارت آسانی کے ساتھ ہو رہی ہے……
اتنی ڈھیر ساری باتیں آپ سب سے اس لئے shareکی ہیں کہ میں بہت دل گرفتہ ہوں، اس طرح کی تلخ مزاجی مجھے پسند نہیں مگر کیا کریں حالات ہی ایسے ہیں کہ قلم لکھنے پر مجبور ہے۔ اور ویسے بھی میں اپنے پاکستان کو برباد ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتاکیونکہ پاکستان تو میری جان ہے۔ یہ مجھے اتنا ہی عزیز ہے جیسے میرے بچے مجھے عزیز ہیں۔ ملکی دگرگوں صورتحال اس قدر گھمبیر ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ پاکستان سے محبت کا یہ عالم ہونا چاہئے کہ صرف لفظی اظہار نہ لگے ۔ یہ محبت ہم سے عمل مانگ رہی ہے ، وطن سے محبت کرنے والا ہر ذی شعور شخص اس وقت ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہوگا۔ جو لوگ وطن کے مفادات پر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں
وہ پاکستان کے مخلص نہیں ہو سکتے۔ اگر ہم سب لوگ اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں اوریہ فیصلہ کریں کہ کیا ہم تمام لوگ محبِ وطن ہیں کہ وطن کے ……؟
قصہ مختصر یہ کہ فیصلہ آپ خود ہی کر لیں کیونکہ کالم نگار تو فیصلہ نہیں کر سکتا وہ تو صرف اپنے دل اور دماغ میں اٹھتی ہوئی چنگاری کو قلم کے ذریعے آپ تک پہنچانے کا فریضہ پورا کرتا ہے۔ ہمارے ملک کے چیدہ چیدہ شخصیات کہتے ہی رہتے ہیں اسی کے مصداق میں بھی یہ جملہ دہرائے دیتا ہوں کہ ” جن لیڈران کا سب کچھ ہی پاکستان سے باہر ہے، وہ پاکستان کے مستقبل کی فکر کیسے کر سکتے ہیں۔ باقی آپ سب سمجھدار ہیں اور داناں عقل والے بھی …… ٭٭٭
کرتے ہیں دشمنی اور ملاتے ہیں ہاتھ بھی رنگِ خیال: محمد جاوید اقبال صدیقی