ایک مشہور کہاوت ہے کہ ” مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے۔”ہماری قومی اور اجتماعی زندگی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، یعنی کسی بھی قوم کے سڑنے یا تباہ ہونے کا آغاز اُس کے سر یا اوپری سطح کی جانب سے ہی ہوا کرتا ہے، مطلب یہ ہے کہ برائی سب سے پہلے قوم کے ارباب اقتدار اور اہل ِ فکرودانش میں پیدا ہوتی ہے، پھراُس کا پھیلاؤ دوسری سمتیں تلاش کرتا ہے ،جو مشہور عربی ضرب المثل ”الناس علیٰ دین ملو کھم” کہ” لوگ اپنے حکمرانوں کے دین پر( پیرو کار) ہوتے ہیں۔”کو سچ ثابت کرتا ہے ، یعنی جیسے حکمران ہوتے ہیں، ویسی ہی اُس کی رعایا ہوتی ہے، ہماری قومی زندگی اِس کہاوت اور عربی ضرب المثل کی مکمل آئینہ دار ہے ،آج ارباب اختیار اور قومی اداروں کے ہر شعبے سے لے کر عوامی سطح تک برائی ایک کینسر کی طرح قومی زندگی کے رگ و پے میں سرائیت کرچکی ہے ، کام چوری قوم کی عادت ثانیہ بن چکی ہے، ڈسپلن کو توڑنا ایک مشغلہ اور قانون شکنی ایک روایت کی شکل اختیار کرگئی ہے، اپنے دائرہ کار اور اختیارات سے تجاوز روز مرہ کا معمول اور عدم برداشت اور تشدد ایک فیشن کا روپ دھار چکا ہے، قوم میںاِن ساری خرابیوں کی تخلیق اور پرورش کسی اور نے نہیں کی ہے بلکہ اِن قومی بیماریوں اور خرابیوں کا اصل سبب نااہل قیادت کے ذمہ جاتاہے،اِس کا ثبوت خود قیادت کا اپنا وہ طرز عمل ہے جولوٹ مار، کرپشن ،بدعنوانی اور قومی وسائل کی بندر بانٹ تک پھیلا ہوا ہے،مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جو اِس عمل کے ذمہ دار ہیں وہی اِس کے بے نقاب ہونے پر سب سے زیادہ شوروغوغا اورواویلا مچاتے ہیں۔
کچھ ایسا ہی گذشتہ دنوں اُس وقت ہوا جب سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیٹیوز کی رپورٹ میڈیا کی زینت بنی،جس کے مطابق سال 2011 میں صدر مملکت سمیت پارلیمنٹ کے67فیصد ارکان نے اپنے ذمہ واجب الادا ٹیکس جمع نہیں کرایا، ٹیکس ادانہ کرنیوالوں میں 63فیصدسینیٹرزجبکہ 69فیصدارکان قومی اسمبلی شامل ہیں،اسلام آباد میں سنٹر فار انوسٹی گیٹو رپورٹنگ اور سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیوٹیوز کی طرف سے تیار کردہ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنیوالوں میں صدر مملکت،سابق وزیراعظم،نائب وزیراعظم، وزیر داخلہ ، وزیر ریلوے ، ڈپٹی چیئرمین سینٹ اور چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین سمیت چودھری وجاہت حسین ، نذر حسین گوندل ، مخدوم امین فہیم اورفرزانہ راجہ بھی شامل ہیں،جبکہ ٹیکس جمع نہ کرانیوالی پارٹی سربراہوں میں عوامی نیشنل پارٹی کی اسفند یار ولی،جے یو آئی (ف) کے مولانا فضل الرحمان ، پیپلز پارٹی( شیرپاؤ) کے آفتاب احمد خان شیرپاؤ، فنکشنل لیگ کے پیر صدرالدین راشدی اور بی این پی عوامی کے یعقوب بزنجو بھی شامل ہیں،سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیٹیوز کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے مجموعی 446 ارکان میں سے صرف 126 ارکان نے ٹیکس ادا کیا، جن میں حکمران پیپلز پارٹی کے صرف 52 ارکان شامل ہیں،جبکہ حکمراں جماعت کے 107 ارکان نے ٹیکس کی ادائیگی نہیں کی،اِسی طرح مسلم لیگ (ن) کے صرف 32 ارکانِ پارلیمنٹ نے ٹیکس جمع کرایا اور71 ارکان نے ٹیکس جمع ہی نہیں کرایا،رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ سینٹ کے 104 میں سے صرف 38 ارکان نے ٹیکس جمع کرایا جبکہ قومی اسمبلی کے 342 میں سے صرف 90 ارکان ٹیکس ادا کرنے والوں میں شامل ہیں، رپورٹ میں ٹیکس ادا کرنیوالے ارکان کی ادا شدہ رقوم کی تفصیلات بھی فراہم کی گئی ہیں جن کے جائزہ سے اکثر ارکان کے انتہائی غریب ہونے کا احساس نمایاں ہوتا ہے۔
غالب گمان یہی ہے کہ سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیٹیوز نے اپنی رپورٹ ایف بی آر کے مرتب کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں مرتب کی ہوگی ،جس میں عین ممکن ہے کسی حد تک مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہو، لیکن اِس رپورٹ سے آپ ہمارے ملک میں ٹیکس نا دہندہ حکمران اور طبقہ اشرافیہ کی چوری اور سینہ زوری کا بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں، خود وفاقی وزیر خزانہ حکمران طبقات اور اسمبلیوں و سینٹ کے ارکان کی ٹیکس چوری کا بھانڈہ پھوڑتے ہوئے گزشتہ سال کی بجٹ تقریر میں اِس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ” پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے مجموعی ساڑھے گیارہ سو ارکان میں سے 8 سو ارکان سرے سے ٹیکس ادا ہی نہیں کرتے۔”ایف بی آر کے ریکارڈ کے مطابق اِس وقت 87 لاکھ کے قریب شہری ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں جن میں سے صرف تنخواہ دار طبقہ پابندی کے ساتھ ٹیکس ادا کرتا ہے جن کی تنخواہوں کی ادائیگی سے پہلے ہی ٹیکس کٹوتی کرلی جاتی ہے، جبکہ بڑے ٹیکس گزاروں میں شامل صنعت کار، تاجر، زمینداراور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے بیشتر لوگ ہر حکومت کا حصہ ہونے یا اقتدار کے ایوانوں میں اثر و رسوخ رکھنے کے باعث ٹیکس چوری یا عدم ادائیگی کو اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔
رہی سہی کسرآمدنی گوشواروں میں آمدنی کی تشخیص سے ٹیکس چوری کے راستے نکال کر پوری کرلی جاتی ہے ،جس کی وجہ سے بڑے ٹیکس گزاروں کی اکثریت یا تو ٹیکس ادا ہی نہیں کرتی یا اُن کی جانب سے ٹیکس کی ادائیگی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے،جس سسٹم میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے اور ٹیکس چوری روکنے کے ذمہ دار افراد ہی ٹیکس چوری اور قومی خزانے کی لوٹ مار کے عمل میں برابر کے شریک ہوں، جس سسٹم میں ارباب اقتدار اور طبقہ اشرافیہ کو اربوں کروڑوں روپے کے قرضے لے کر معاف کرانے اور جعل سازی کی بنیاد پر ٹیکسوں کی ادائیگی سے انکار کی عادت پڑی ہو، جس سسٹم میں صدر مملکت، وزیراعظم، وفاقی وزراء اور صوبائی کابینہ کے ارکان تک ٹیکس ادا نہ کرنے والوں میں شامل ہوں،اُس سسٹم میں ٹیکس چوروں سے قانون کی عملداری کون کرائے گا۔؟ یہ سوال پوری قوم کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں جب کسی طاقتور اور اعلیٰ شخصیت کا بدعنوان ہونا ثابت ہو جاتا ہے تو اُسے قانون کے کٹہرے میں لاکر قرارواقعی سزا دینے اور نشانِ عبرت بنانے میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں کی جاتی، مگر ہمارے یہاں گنگا اْلٹی بہہ رہی ہے، چیئرمین نیب نے کرپشن کی جس نہر کا ذکر کیاہے،اگر اُس نہر میں احتسابی جال پھینکا جاتا ہے تو یقینا بڑے بڑے مگرمچھ قابو میں آتے ،مگر افسوس اِس پر عمل درآمدکرنے کے بجائے 12 دسمبر کو کابینہ کے اجلاس میں وزراء کی اکثریت نے سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیٹیوز، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ اور چیئرمین نیب کے بیان کو مسترد کر دیا،جبکہ 13 دسمبر کو چیئرمین نیب کی پریس کانفرنس کے بعد یہ تاثر ابھرا کہ انہیں اپنے بیان کی ثقاہت پر پورا یقین ہے مگر اربابِ حکومت اِسے چیئرمین کی سرکشی تصور کر رہے ہیں۔
ہمارا ماننا ہے کہ اگر اربابِ اقتدار یہ سمجھتے ہیں کہ چیئرمین نیب نے مبالغے سے کام لیا ہے تو وہ ٹھوس حقائق و شواہد اور اعدادوشمار کی روشنی میں اپنی حکومت کی پونے پانچ سالہ دیانتدارانہ کارکردگی کا ریکارڈ پیش کر کے اُن کے مبالغہ کی قلعی کھول سکتے ہیں اور اِس معاملے کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹس، گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، چیئرمین ایف بی آر اور چیئرمین نیب کے بیانات میں پیش کردہ اعدادوشمار میں فرق کیوں نہیں ہے؟گو وفاقی وزراء نے چیئرمین نیب اور ایمنسٹی کی رپورٹ کو تو مسترد کیا لیکن کسی معزز وفاقی وزیر کو یہ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ اُن کے پونے پانچ سالہ دور حکومت میں کسی بھی سطح پر کوئی کرپشن نہیں ہوئی یا کرپشن کی سرکوبی اور انسداد کیلئے اُن کی حکومت نے فلاں فلاں آہنی اقدامات کئے،تعجب خیر بات یہ ہے کہ اصل موضوع پر بات کرنے کے بجائے ایک وفاقی وزیر نے کرپشن کو سندِ جواز فراہم کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا کے کس ملک میں کرپشن نہیں ہوتی۔
یہ درست ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک بدعنوانی اور کرپشن کی لپیٹ میں ہیں، لیکن کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بھی کرپشن کریں اور دوسروں کے غلط کام سے اپنی کرپشن اور بدعنوانی کیلئے سند جواز حاصل کریں،دنیا میں ایسے بھی بہت سے ممالک اورمثالیں موجود ہیں،جہاں کرپشن کو جرم مانا جاتا ہے اور ٹیکس چوری سب سے بڑا جرم گردانا جاتا ہے،جہاں کرپٹ افراد کو احتساب کے کٹہرے میں لاکر قرارواقعی سزا دی جاتی ہے،کیا ہم اُنہیں سند جواز نہیں بناسکتے ، مگر افسوس ہم نے ہمیشہ منفی مثالوں ہی کو اپنے سامنے رکھا،اِس منفی روش کے فروغ کا نتیجہ آج ایک بھیانک شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے، ٹیکس چوری ہمارے معاشرے میں جرم کے بجائے فیشن کی شکل اختیار کر چکی ہے اور بدعنوانی اور کرپشن کے سنگین ترین جرائم میں ملوث ملزمان عدالت عظمیٰ کے واضح احکامات کے باوجود آزاد گھوم رہے ہیں،جب حکمران طبقات ہی اپنے ذمہ واجب الادا ٹیکس ادا نہیں کرینگے تو عام ٹیکس گزاروں سے ٹیکس ادائیگی کی توقع کس طرح کی جا سکتی ہے،جس قوم کے حکمران اور طبقہ اشرافیہ ہی ٹیکس چوری کے مرض میں مبتلا ہوں ، سرکاری پرسرستی میں لوٹ میں ملوث ہوں توپھر کیا دیگر اداروں اور عام طبقے کواِس کی ترغیب نہیں ملے گی۔
جب اعلیٰ ترین مناصب پر فائز افراد ہی بدعنوان ہو جائیں تو وہ نچلی سطح کے لوگوں کو بدعنوانی سے کیسے روکا جا سکتا ہے،ایسی صورت میں قوم کی ترقی کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے،کس طرح اصلاح احوال کی توقع کی جاسکتی ہے،آج ہمارے ارکان پارلیمنٹ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور چیئر مین نیب کی کرپشن کے حوالے سے رپورٹس اور بیانات پر مشتعل اور برافروختہ ہیں، غم و غصہ کی حالت میں وہ اِن رپورٹس اور بیانات کو مسترد کررہے ہیں، مگر حقیقت یہی ہے کہ کرپشن کے معاملے پر کابینہ کا غم وغصہ حقائق کے برخلاف ہے اور کرپشن کی اِن رپورٹس کو مسترد کرنے سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہو سکتے، کیونکہ ایک ایمنسٹی انٹرنیشنل ہی نہیں خود حکومت کی بدعنوانیوں کے حوالے اُس کا اپنا ادارہ نیب بھی انگشت نمائی کر رہا ہے،آج ہماری قومی زندگی کا کوئی شعبہ رشوت خوری، کمیشن اور بدعنوانی سے پاک نہیں ہے،حال یہ ہے کہ سرکاری اداروں میں اب ایماندار افراد ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے، کرپشن اور بدعنوانی نے زندگی کے تمام شعبوں کو کھوکھلا کر دیا ہے اورکرپشن ، بدعنوانی ،لوٹ مار اور قومی وسائل کی بندر بانٹ ارباب اقتدار اور طبقہ اشرافیہ کا نشان امتیاز بن کر رہ گئی ہے، آج کرپشن اور بدعنوانی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے، ذرائع ابلاغ میں کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ بدعنوانی کے بارے میں کوئی خبر شائع نہ ہوتی ہو۔
دنیا بھر کے مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں میں جمہوریت کے تسلسل اور معاشی ترقی کیلئے بدعنوانی سے پاک حکومت کا وجود اتنا ہی ناگزیر ہے جتنا انسانی زندگی کی بقاء کیلئے آکسیجن کی موجودگی ضروری ہے، مگر جہاں حکمران اور طبقہ اشرافیہ کیلئے خود احتسابی اورجواب دہی کا تصور آئین و قانون سے بالاتر ہو،وہاں مملکت کے ہر شعبے میں ایسا تنزل اور انحطاط طاری ہوجاتا ہے جو ایک عا م آدمی کی زندگی اجیرن بنا دیتا ہے،یہ صورت حال ملک کے طول وعرض میں باآسانی دیکھی جاسکتی ہے ،آج ہمارے اربابِ اقتدار کی عاقبت نا اندیشی، حسن کارکردگی اور عوامی خدمت کی روشن مثالیں پاکستان کے ہردرودیوار پر رقم ہیں۔
Pakistan
روٹی کپڑا اور مکان دینے کے دعویداروں اہل پاکستان سے جس طرح کا سلوک روا رکھا ہوا ہے ،وہ یقینا بے حسی اور حقارت کے رشتے کا عملی ثبوت ہے،یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ حکمران اگر اصول پسند اور قانون و ضابطے کے پابند ہوں تو عوام بھی آئین و قانون کا احترام کرتے ہیں، حکمران اگر سادگی کو اپنا شعار بناتے ہیں تو عوام بھی اپنا طرز زندگی سادہ اور آسان کرلیتے ہیں، حکمران اگر مسائل کے حل میں سنجیدہ ہوں تو عوام کے مزاج میں بھی سکون اور ٹھہراؤ آجاتا ہے ،مگر حکمران اگر تصنع، بناوٹ اور نمائش پسند ی کے دلدادہ ہوں تو عوام اُن سے پہلے عیش و آسائش پر فریفتہ دکھائی دیتے ہیں،حکمران اگر بدعنوان اور کرپشن میں مبتلاہوں تو عوام بھی اِس بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں،جب ارباب اقتدار صاحب کردار ، صادق و امین اور قانون پسند نہ ہوں تو قوم میں محنت و دیانت، قناعت و ایمانداری اور فرض شناسی و قانون پسندی کے جذبات کیونکر پیدا ہوسکتے ہیں،کسی دانشور نے درست کہا ہے کہ ”معاشرے میں پیدا ہونے والی خرابی کسی ایک شعبے یا ادارے تک محدود نہیں رہتی ۔”چنانچہ آج ملک کا ہر قابل احترام عہدہ کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات کی زد میں ہے،جس کے خاتمے کیلئے عدلیہ، پارلیمنٹ ،ارباب اختیار اورمعاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،ہم سمجھتے ہیں جس دن وطن عزیز کا ہر فرد انفرادی طور پر بدعنوانی سے اجتناب کا طرز عمل اختیار کرلے گا کرپشن سے پاک معاشرے کا خواب اُسی دن شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔