کرپشن اس وقت ہندوستانی میڈیا،سیاسی پارٹیوں اور خواندہ و ناخواندہ تمام ہی لوگوں کا دلچسپ موضوع بن چکا ہے۔جلسے و پارٹیاں ہو ںیامذہبی و غیر مذہبی قسم کے پروگرام،آفسس ہوں یا گلی کوچوں کے ڈھابے،نائی کی دکان ہو یا قہواہ خانے۔بس ایک ہی بات ہے ،کرپشن، کرپشن،کرپشن۔کہیں لوگ کہتے ہیں کہ یہ ملک بہت کرپٹ ہو چکا ہے، اس کے سیاسی لوگ کرپشن کی دلدل میں دھنستے ہی جا رہے ہیں۔کہیں لوگ کہتے ہیں کہ کرپشن ایک برائی ہے اس لیے ہر سنجیدہ شخص کو اس آواز میں آواز ملا لینی چاہیے۔ تو کہیں لوگ کہتے ہیں کہ کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والے لوگ خود ہی کرپٹ ہیں،چال باز ہیں، عیار اور مکار ہیں، موقع پرست اور ایک خاص نظریہ کے حامل ہیں۔یہ کرپشن کے خلاف مہاسنگرام چلانے والے افراد چاہتے ہیں کہ عوام اُن کو ہیرو بنا لیں،ان کی سوچ کو اپنی سوچ بنا لیں،اور جس مقصد کے تحت وہ یہ سب کر رہے ہیں اسی مقصد کو عوام بھی اپنا مقصد بنا لیں۔تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں اور عوام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو عوام توآخر کار عوام ہی ہوا کرتی ہے۔ مرد آہنگ بابا رام دیونے کرپشن، کالا دھن اور ملک کی سیاست کو ٹھیک کرنے کا عہد کیا تھا اور اس مقصد کے لیے انھوں نے پنڈال لگایا ، پوسٹر چسپاں کیے،پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے دل کھول کر ان کا چرچا بھی کیا لیکن بابا کو یہ سب راس نہ آیا۔پہلے وہ اپنے ہی لگائے پنڈال سے غائب ہو گئے اور بعد میں نظر بھی آئے تو عورتوں کی چوڑیاں پہنے ہوئے تو نہیں لیکن عورتوں کے لباس میں وہ ضرورنظر آئے۔اور کہا کہ جس رات انھوں نے ایسا کچھ کیا تھا وہ رات ” تاریخ میں سیاہ رات قرار دی جائے گی”شاید اس لیے کہ بابا رام دیونے عورت کا روپ دھار لیا تھا یا پھر وجہ کوئی اورتھی، یہ وہی زیادہ بہتر جانتے ہوں گے۔انا جی تو پہلے ہی سے میدانِ کرپشن میں تھے یعنی کرپشن کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے لیکن ابھی ان کی مقبولیت اس درجہ نہیں پہنچی تھی جس کے وہ خواہاں تھے۔اب انا جی نے بھی راج گھاٹ پر کرشنکے خلاف بنسی بجائی اور شیلاجی جھوم اٹھیں۔بس پھر کیا تھا یہ جھومنا تھا کہ عوام کو بھی اس سُر پر جھومنے کی منصوبہ بندی کی جانے لگی اور اس کے لیے جو جگہ طے کی گئی وہی پرانی بابا کی جگہ ،یعنی دہلی کا رام لیلا میدان۔بارہ دن تک اپواس پر بیٹھے انا نے اور ایک خاص نظریہ سے تعلق رکھنے والے کیڈر نے ان کا خوب ساتھ دیا۔کہا گیا کہ ڈاکٹر جو انا جی کی صحت کا خیال رکھیں گے وہ سرکاری نہیں ہوں گے۔شاید اس لیے کہ کہیں گورمنٹ بابا رام دیو کی طرح انا جی کو بھی “مارنے کا پلان” نہ بنا رہی ہو یا اس لیے کہ کہیں اس اپواس کا راز نہ کھل جائے۔74سالہ انا جیجو جسمانی لحاظ سے بھی کمزور محسوس ہوتے ہیں 12دن کی لگاتار بھوک ہڑتال کے باوجوداُن کا وزن صرف 7.5کلوگرام کم ہوتا ہے وہیں بابا رام دیو جو یوگا کے گرو مانے جاتے ہیںاور جسمانی صحت کے لحاظ سے انا جی سے کافی بہتر نظر آتے ہیں چندہی دنوں کی بھوک ہڑتال میں بے حال ہو جاتے ہیں ۔ذہن جھنجوڑتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ کیا انا جی کا اپواس حقیقی اپواس تھابھی یا نہیں؟اب باری تھی “انسانیت کے مسیحا”نریندر مودی کے اپواس کی۔اور بقول کالم نگار 17 سے 19 ستمبر تک چلنے والا نریندر مودی کا فائیو اسٹار ”اپواس” دنیا کے سامنے آیا جس پر تقریباً100کروڑ روپیہ خرچ کیا گیا۔یہ اس شخص کا “ڈرامہ” تھا جس نے آج تک ہندوستانی آئین، ہندوستانی اقدار، ہندوستانی تہذیب اور ہندوستانی جمہوریت کا مذاق ہی اڑایا تھا اب انہوں نے اس لفظ”اپواس”کا بھی مذاق اڑایا ہے جو جنگ آزادی کے دوران چوٹی کے مجاہدین آزادی کا خاصہ رہا تھا۔ ہر چیز کا مذاق اڑانے والے کے لیے صرف ایک ہی چیز رہ گئی تھی بھوک ہڑتال اور اپواس ، اس کی بھی انہوں نے جم کر تذلیل کی اور میڈیا نے اپنا “ذمہ دارانہ رویہ” اختیار کرتے ہوئے اُس اپواس کو بھر پور کوریج دیا۔ کوئی ٹی وی چینل ایسا نہیں تھا جس پر 24 گھنٹے کوریج نہ ہو۔ ہندوستانی عوام دیگر خبریں دیکھنے اور سننے کے لئے ترس گئے تھے۔ ایک ٹی وی چینل مودی کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا تھا۔ مودی نے یہ کردیا، وہ کردیا، ترقی کا دوسرا نام نریندر مودی ہے۔ گجرات دیگر ریاستوں کے لئے ہی نہیں مرکز کے لئے بھی ایک ماڈل ہے وغیرہ وغیرہ،۔اُس موقع پر پرشانت بھوشن کہ رہے تھے :”گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے” مشن یکجہتی ” اپواس کو ان کے ذاتی عمل سے تعبیر کرنا چاہیے کیونکہ اگر اس سہ روزہ اپواس پروگرام کے اخراجات ریاستی حکومت نے برداشت کئے ہیں تو یہ کرپشن ہے۔ بعد میں سری رام سینا کے اراکین ایک اور بیان سے ناراض ہوکر پرشانت بھوشن کے چیمبر میں گھس گئے اور ان کی جم کر پٹائی بھی کر بیٹھے۔ یاترا بھی کی گئی!ہمارے ملک ہندوستان میں یاترائوں کی خاص اہمیت ہے۔بہت ساری یاترائیں مذہبی جذبات کے پیش نظر کی جاتی ہیں اور عام ہندوستانی جن کے بارے میں آرایس ایس “ہندو”کا لفظ تعبیر کرتی ہے ،کے جذبات وابستہ ہوتے ہیں۔لفظ “یاترا”مذہب اور مذہبی عقیدت مندوں کے لیے متبرک ہے اور اسی لیے زندگی کی اہم یاترا “تیرتھ یاترا” اپنے گناہوں کو دھلوانے کی غرض سے ہوا کرتی ہے جس سے ایک شخص کے وہ پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں جو اس نے اب تک انجام دیے ہیں۔شاید اسی لیے بی جے پی کے قد آور لیڈر ایل کے اڈوانی نے بھی مختلف مواقع پر مختلف ناموں سے یاترائیں نکالی ہیں۔ اب معلوم نہیں اڈوانی کی یہ یاترائیں ان کے پاپ دھونے کا ذریعہ بنتی ہیں یا ان میں اضافہ کا؟فل الوقت جو “جن چیتنا یاترا”نکلی ہے وہ جے پرکاش نارائن کے گاؤں سبت دیاراسے شروع کی کی گئی ہے اور ایک ساتھ کئی پیغام دینے کی کوشش کررہی ہے۔ اس یاترا کے ذریعہ اڈوانی جہاں سوشلسٹ بننے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں یہ پیغام بھی دینے کی کوشش کر رہے تھہیںکہ ان کا اس بارکا موضوع رام جنم بھومی نہیں بلکہ بدعنوانی، کالا دھن اور مہنگائی ہے جس سے عام لوگ متاثر اور پریشان ہیں۔ یہ بات آپ کے علم میں ہے کہ جے پرکاش نارائن نے ہی 1974 میں مکمل انقلاب کا نعرہ دیا تھا اور لوگوں کو متحد کیا تھا جس کے بعد اندرا گاندھی کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا تھا اور وہیں سے جن سنگھ (آج کی بی جے پی) کے سنہرے دور کا آغاز ہوا تھا ور ایل کے اڈوانی اُس حکومت میں اطلاعات و نشریات کے مرکزی وزیر بنے تھے۔ ان کی یوم پیدائش کے موقع پر مسٹر اڈوانی نے یہ یاترا ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت شروع کی ہے۔ جے پرکاش کی تحریک سے کسی کو کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن بی جے پی کو قومی سیاست میں اپنی موجودگی کا احساس کرانے کا بھرپور موقع دستیاب ہوگیا تھا۔اس کے بعد سوائے 1984 کے بعد جس میں بی جے پی کو صرف دو سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا، کبھی پیچھے مڑ نہیں دیکھا۔ 1989 میں وی پی سنگھ کی بدعنوانی تحریک کا فیض بھی سب سے زیادہ بی جے پی کو ہی پہنچا تھا اور وہ 2 سیٹوں سے چھلانگ لگاکر89 پر پہنچ گئی تھی اوربالآخر مرکز میں اقتدارکی کرسی پر چھ سال تک براجمان رہی۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سماج واد کی کوکھ سے ہی بی جے پی اور فرقہ پرستوں طاقتوں کا فروغ ہوا ہے۔آج جبکہ ایک با ر پھر مسٹر اڈوانی نے اپنی رتھ یاترا کا موضوع بدعنوانی، کالا دھن اور مہنگائی بنایا ہے،اس موقع پرٹیم انا کے ممبر اروند کیجری وال نے آڈوانی کی رتھ یاترا کے حوالے سے کہا کہ ملک کو کرپشن سے نجات دلانے کے لئے ایک جن لوک پال قانون کی ضرورت ہے رتھ یاترا کی نہیں۔ لیکن لکھنے والے اور کہنے والے کہ رہے ہیں کہ ان موضوعات کے پس پردہ کوئی اور ہی مفاد وابستہ ہیں جو جلد ہی سامنے آ جائیں گے ۔اڈوانی کی اس رتھ یاترا سے بی جے پی کا اندرونی خلفشار بھی ابھر کر سامنے آگیا ہے اور یہ بات بھی سامنے آگئی ہے کہ بی جے پی کے اندر وزیر اعظم کی دوڑ میں کسی ایک نام پر اتفاق رائے نہیں ہے یہی وجہ ہے اس یاترا میں عوام کے لیے وہ کشش نہیں جو ہونی چاہیے تھی اور عوام ہی کیا بی جے پی کے ورکرس بھی مختلف مقامات پر بہت مختصر نظر آئیں ہیں۔ وہیں دوسری جانب ملک کے لاکھوں عوام جو ایک وقت کی روٹی کے لیے ترستے نظر آ رہے ہیں ان کے مسائل حل کرنے کی بجائے اپواس، انشن اور یاترائوں پر کروڑوں روپیہ بیجا خرچ کرکے یہ ثابت کر دیا گیا ہے کہ ان تمام سرگرمیوں کا مقصد صرف اور صرف حصول ِ اقتدارہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ! میڈیا کہ جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی دونوں عوام کے سامنے لا کر رکھ دے۔افسوس کہ وہ آج سرمایہ داروں ،ملٹی نیشنل کمپنیز اور سیاست دانوں کے ہاتھ بک چکی ہے۔ایک جانب وہ کرپٹ لوگ ہیں جو کرپشن کے نام پر اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ِ عمل ہیں تو دوسری جانب سستے اور کم داموں پر بک جانے والے صحافی اور رپورٹرس کہ جن کے دام کہیں1000روپے کا ایک نوٹ ہے تو کہیں صرف 500روپے۔مفاد پرستوں نے میڈیا کی تصویر مسخ کر کے رکھ دی ہے یہی وجہ ہے کہ دن رات اور ہفتہ کے ساتوں دن خصوصاً ہندی الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیاایک خاص نظریہ و مقصد سے وابستہ افراد کے کوریج میں مصروفِ عمل ہے۔نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستانی میڈیا میں فاسسٹ اور ہندوتو وادی منفی سوچ رکھنے والوں کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے یا دوسرے لفظوں میں سچائی کے علمبرداورں کو یہ لوگ خریدنے میں بہت تیزی کے ساتھ کامیاب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ کرپشن جو آج ہندوسستان کو اندر سے کھوکھلا کیے جا رہا ہے ایک اہم مدا ہے لیکن اس مدے کو اٹھانے والوں کو اپنے گریبان میں ضرور جھانک لینا چاہیے۔بابا رام دیو اور ان کے ساتھی بال کرشن کا جالی پاسپورٹ،بابا کے ٹرسٹ،کمپنیز اور تنظیموں کے حسابات میں انکیم ٹیکس کی خلاف ورزیاں۔انا ہزارے کے ہند سو ٔراج ٹرسٹ کے تعلق سے سپریم کورٹ کا نوٹس ۔مودی کا انشن اور حکومت کا 100کروڑ روپیہ کا استعمال نیز مودی پر الزام لگانے والوں پر مودی کا عتاب۔اڈوانی کہ جس کی ایک یاترا نے پورے ملک کا امن و امان تہس نہس کر دیا تھا۔اسی طرز پر نکلی ایک اور یاترا اور یاترا سے قبل مخلتف مقامات پر مسلمانوں کے جان و مال کی کھیلی جانی والی ہولی۔اور سب سے بڑھ کر میڈیا کا مشتبہ کردار۔ یہ تمام واقعات اس جانب متوجہ کرتے ہیں کہ کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والے خودہی کرپٹ ہیں ۔پھر جب کہ برائی کو ختم کرنے والے خود اسی دلدل میں دھنسے ہوئے ہوںتو کیونکر وہ اپنے جسم اور آتما کو سب سے پہلے گنگا میں ڈبکی لگا کر پاک نہیں کرتے ۔لیکن ہائے افسوس کہ گنگا تو خود ہی گرد آلود ہے۔تحریر : محمد آصف اقبال، نئی دہلی