یونس حبیب پاکستان کے معروف بینکار ہیں، انہوں نے12 دسمبر1963میں ایک معمولی کلرک کی حیثیت سے حبیب بینک جوائن کیا، چار سال بعدیکم جنوری 1967کو تیسرے گریڈ میں ترقی پائی،20سال بعد یکم جنوری1986کو انہیں ایگزیکٹو وائس پریزیدنٹ بنایا گیا، اس کے 4ماہ بعد انہیںسندھ کا صوبائی چیف بنایا گیا،1990میں انہیں ڈیوٹی فری شاپ پروجیکٹ میں30کروڑ کا قرضہ منظورکرنے پر گرفتارکیا گیا ، اگلے سال انہیں ان کی غیر اخلاقی سرگرمیوں کی بنا پر انہیں معطل کر دیا گیا، ان پر بدعنوانی کے الزامات ہونے کی وجہ سے نوازشریف نے9اکتوبر1990کو انہیں برطرف کر دیا، تاہم سیاسی دبائو کی وجہ اس برطرفی کوریٹائرمنٹ میں بدل دیا گیا، لیکن نواز شریف کے وزیر اعظم بنتے ہی یہ حیرت انگیز طور پرایک ماہ کے اندر اندر مہران بینک کے چیف آپریٹنگ آفیسر بن گئے، اسی ماہ انہیں مہران بینک قائم کرنے کی اجازت ملی، اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ جام صادق علی ان کے یارِ غار تھے، اس سلسلے میں انہوں نے ان کو کروڑوں روپے دئیے تھے۔
یہ بینک چونکہ نواز شریف کے دور میںکھلا تھا، اس لیے انہوں نے شریف برادران کوبھی20کروڑ روپے دیے، مہران بینک نے اپنے قیام کے تیسرے سال1992میںکراچی، لاہور، پنڈی، کوئٹہ، پشاوراور میرپور میںاپنی برانچیںکھول لیں، اس وقت مہران بینک کی کل مالیت 600کروڑ تھی،اس میں لوگوں سے 30کروڑ روپے لیے گئے اور 10روپے فی شیئر دیئے گئے، انہیں مہران بینک کے بورڈآف ڈائیریکٹرزکا چیف آپریٹنگ آفیسر بناتے وقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ان کی تقرری پرتحفظات کا اظہار کیا تھا،کیونکہ ان کا پورا کیرئیر کرپشن، غبن اور فراڈ کے کیسز سے عبارت تھا، لیکن اسٹیٹ بینک کی اتھار ٹی کو تسلیم نہیں کیا گیا، نواز شریف اور وزیر ِ خزانہ سرتاج عزیزکو اس بارے میں آگاہ کیا گیا ، تاہم انہوںنے بھی کوئی ایکشن نہیں لیا مہران بینک کے اعلی عہدے پر فائز ہو کر بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو نظر انداز کر کے بینک میں اپنی مرضی کے افراد بھرتی کرائے، اس دوران انہوں نے فیصل بینک سے بھی 30کروڑ کا قرضہ لیا، جس کے لیے انہیں اپنی جائیداد گروی رکھوانی پڑی، ان کی سربراہی میں مہران بینک شدید ترین بحرانوں کا شکار بھی ہوا، اس کے علاوہ یونس حبیب نے مختلف جعلی اکاؤنٹس بنا کر بینکوں، شخصیات اور اداروں کو کنگال کیا، ان کے کرپشن،لوٹ کھسوٹ اور غبن کی لسٹ بہت طویل ہے، انہی حرکات کی وجہ سے یہ زیرِ حراست بھی رہے ۔
یونس حبیب اس وقت پاکستانی میڈیا کی لیڈ اسٹوری بنے ہوئے ہیں،آپ ان کو1990کے سانتا کلاز بھی کہہ سکتے ہیں، یہ بڑے عرصے سے منظرِ عام سے روپوش تھے، تاہم فروری کے آخرمیں انہیں سپریم کورٹ نے 16سال پرانے اصغر خان کیس کے سلسلے میں حاضر ہونے کو کہا، عدالت کے بُلاوے پر مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب وہیل چیئر پر عدالت حاضر ہوئے، انہوں نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے سامنے بیان دیتے ہوئے بے شمار انکشافات کیے، ان انکشافات نے گویا ننگوں کو مزید ننگا کر دیا، انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ، سابق صد غلام اسحق خان اور سابق وزیراعظم نواز شریف پرقومی خزانوں کے ذریعہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے کا الزام لگایا، ان کا کہنا تھا کہ مارچ1990میں اس وقت کے صدر غلام اسحق خان اوراسی زمانے کے آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کرنے لیے پیسوں کا بندوبست کرنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا تھا، انہوں نے انکار کر دیا تو انہیں خطرناک نتائج کی دھمکیوں کے بعدکراچی ائیرپورٹ سے ایف آئی اے کے اہلکاروں نے حراست میں لے لیا تھا۔
پھر ان کی صدر اور آرمی چیف سے اگلی ملاقا ت بلوچستان ہاؤس میں ہوئی، صدر اور چیف آرمی دونوں نے انہیں عظیم ترقومی مفاد کا جھانسہ دے کر دوبارہ جائز یا ناجائز طریقے سے ہر صورت میں پیسوں کے انتظام کا مطالبہ کیا تو انہوں نے اس شاہی فرمان کی بجا آوری کرتے ہوئے ایک ارب48کروڑروپوں کا بندوبست کر دیا، انہی پیسوں میں سے انتخابی مہم کے لیے انہوں نے سیاست دانوں میں 34کروڑ روپے تقسیم کیے، باقی ایک ارب سے زائد رقم دیگر افراد کے لیے سرمایہ کاری پر خرچ کی گئی، ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں اس کام میں سابق صدر غلام اسحق خان ، سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ، سابق آئی ایس آئی چیف اسد درانی اور سابق بیوروکریٹ روئیداد خان نے استعمال کیا تھا، انہوں نے ان شخصیات کے اسما گرامی اور ان حضرات کو دی جانے والی رقوم کی تفصیل بھی بتائی، ان انکشافات کے منظرِ عام پر آنے کے بعد اصولی سیاست کے دعویدارشریفوں، سچائی کے علمبردار صحافیوں اورہمیشہ مظلومیت کا ڈھونگ رچانے والے مظلوموں کے ساتھی بھی یونس حبیب کے حمام میں ننگے نظر آئے، اس کے علاوہ عدالت میں شواہد کا سربمہر پیکٹ بھی حاضر کیا گیا۔
انہوں نے ابتداء میں جو کچھ انکشافات کے ڈونگرے برسائے تھے وہ سارے شریفوں کے خلاف تھے، اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سب کچھ زرداری صاحب کا کیا دھرا ہے، وہ رائے ونڈ کے محلوں میں خیمہ زن شریفوں کی چمک چھیننے کے لیے یہ تگ و دو کررہے ہیںلیکن پھر تھوڑے ہی دنوں بعد موصوف نے یہ کہہ کر کچھ اوروںکا بھی کچا چٹھا کھول دیا کہ میں نے اپنے 1990کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے 1993میں مسلم لیگ کے خلاف پیپلز پارٹی کو بھی چندے سے نوازا تھا، انہوں نے پہلے تو اس کیس کے فریقین کو لڑایا ، بعد میں خودنے اپنے آپ کو بدمعاش جبکہ رقم بٹورنے والوں کو مہا بدمعاش کہہ کرملبہ اپنے پر سے ہٹانے کی کوشش کی، اگر چہ یونس حبیب کا پورا کیریئر ہمیشہ کرپشن،دھوکہ اور جعلسازی سے عبارت ہے، لیکن انہوں نے جو حقائق بیان کیے ہیں، ان میں سو فیصد نہیں تو نوے فیصد سچائی ضرور ہے۔
یہ کیس آج کا نہیں،16سال پرانا ہے، اس کیس کے خالق سابق چیف ائیر مارشل اصغر خان ہیں، یہ پاکستان نیشنل الائنس کے صفِ اول کے رہنماء اور تحریکِ استقلال کے بانی ہیں، یہ ضیاآمریت کے ہیرو تھے، انہوں نے ہی پاکستان قومی اتحاد(P.N.A)کی تشکیل کے بعد بھٹو حکومت کے خاتمہ کے لیے فوج کو حکومت پر قبضہ کی دعوت دی تھی ، قومی خزانہ کی بندربانٹ کا یہ فریضہ 1990میں ادا کیا گیا تھا، اس کی خبریں1991میں ہی اخبارات میں آنا شروع ہو گئی تھیں، تاہم پیسے لینے والے ارکان کی مداخلت کی وجہ سے یہ حقائق سامنے نہیں ا پائے، اس زمانے میں نواز شریف اور ان کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر فوج نے آئی جے آئی کے نام سے جو گیم کھیلا تھا، اسی پلیٹ فارم کے تحت میاں صاحب وزیر اعظم بن گئے تھے،20اپریل1994کو اس وقت کے وزیر داخلہ میجر جنرل نصیراللہ بابر قومی اسمبلی میں اس حوالے سے یہ انکشاف کر چکے تھے اس کے بعداصغر خان نے 16جون1996میںسپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی،جس میں انہوں نے پیپلز پارٹی کے خلاف غلام اسحق خان، مرزا اسلم بیگ اور نواز شریف کی اسلامی جمہوریہ اتحاد کے گٹھ جوڑ سے جو کچھ سازشیں کی گئیں، ان کا حوالہ دیتے ہوئے عدالتِ عالیہ سے التجاء کی تھی کہ اس کیس کو حل کیا جائے۔
اس سے پہلے اس وقت کے آئی ایس آئی چیف اسد درانی بھی اس حوالے سے بیانِ حلفی دے چکے ہیں، اس کے بعد عدالت میں 1997اور1999کو اس کیس کی سماعتیں ہوتی رہیں، تاہم اس دوران حکومتوں کی آنیاں جانیاں لگی رہیں اور کیس کی فائل پر دھول جمتی رہی، اکتوبر1999کو جسٹس سعید الزمان صدیقی اس کیس کی سماعت کر رہے تھے لیکن پھر فوجی بغاوت کی وجہ سے کیس دوبارہ کلوز ہوگیا، اب ایک بار پھر12سالوں بعد29فروری کواس کی سماعت شروع ہوئی اور یوں یونس حبیب کے یہ انکشافات سامنے آئے، ان ہوش رُبا انکشافات کے منصہ شہود آنے کے باوجوداب تک عدالت کی طرف سے کوئی خاص قابلِ ذکرایکشن نہیں ہوا، قوم کی امیدیں اپنی آزاد عدلیہ کے ساتھ وابستہ ہیں،جبکہ دوسری طرف ایسی خبریں بھی ہیں کہ اس کیس میں چونکہ فوج اور نواز لیگ ملوث ہیں، اس لیے پیپلز پارٹی ملک کی عسکری قیادت کے ساتھ میمو اسکینڈل پرجبکہ شریف برادران کے ساتھ سوئس بینک اسکینڈل پر مک مکا کرنا چاہتی ہے۔
اس کیس کے ری اوپن ہونے سے پہلے تک نواز لیگ عدالت کے ذریعہ سوئس گورنمنٹ کو خط لکھوانے پر ڈٹی ہوئی تھی، جبکہ فوج اور آئی ایس آئی میمو اسکینڈل پرکسی کی شہادت کی منتظر تھی لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ یہ سارے عزتِ سادات بچانے کے واسطے نظریں نیچی کیے ہوئے ہیں،عدالت کے ایوانوں میں بھی سکوت طاری ہے اور زرداری صاحب کا طلسم کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے اس کیس کے ذریعہ پاکستانی سیاست، انتخابات اور حکومتوں کی تشکیل میں اسٹیبلشمنٹ کے رول کو چیلنج کیا جا سکتا ہے اگر اس کیس کا حتمی فیصلہ ہوجائے تو سیاستدان،پیسہ اورفوج کی ٹرائیکا گیم ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے سکتی ہے۔
انتیس فروری2012کو جب اس کیس کی شنوائی ہونا شروع ہوئی تو قوم کی آنکھیں امید سے جھلملانے لگی تھیں کہ آزاد عدلیہ قومی خزانہ کو شیرِ مادرسمجھ کر ہڑپ کرنے والے والوں کو وہ سارا کچھ ڈکارنے پر مجبور کرے گی، لیکن یہ خواب بھی شرمندئہ تعبیر ہوتا نظر نہیں ا رہا، حالانکہ یہ انتہائی سیریس ایشو ہے لیکن اب تو سینیٹ الیکشن بھی ہو چکے ہیں، میاں صاحب بھی شاداںہیں اور زرداری صاحب بھی فرحاں نظرا رہے ہیں، لگتا ہے میمو گیٹ اسکینڈل کی طرح یہ اسکینڈل بھی تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو جائے گا اور ہم عوام انصاف کے لیے دردر ٹھوکریں کھاتے رہیں گے، عدلیہ کو ہم مسیحا سمجھ بیٹھے تھے،لیکن اب تو کوئی مسیحا بھی نہیں رہا، ہم کس کے سامنے اپنا دُکھڑا روئیں اب ہم عوام کسے وکیل کریں اور کس سے منصفی چاہیں۔