11 اپریل 2006 کو شروع ہونے والا انسانی زندگیوں کی بربادی کا کھیل 11 ،ستمبر 2012 کو اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ علی انٹر پرائز سائٹ کرچی کے بلدیہ ٹاؤن کی گارمنٹ فیکٹری میں لگنے والی آگ نے پاکستان کے سولہ کروڑ عوم کو حکمرانوں کے مگر مچھ کے آنسووں کے سوائے سوگوار کر دیا۔ 260 ،لاشیں اس سانحہ جانکاہ کے بعد اٹھائی گئی ہیں۔ جن میں زیادہ تر نوجوان بچے اور بچیاں تھیں فیکٹری کے مین دروزے پر تالا لگنا بھی بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ فیکٹری مالکان کو وقتاََ فوقتاََ سیاسی اور دیگر غنڈہ عناصر کی جانب سے جو دھمکیاں بھتوں اور اغوا برائے تاوان کی ملتی اور محسوس ہوتی تھیں ان کے پیش نظر سیکورٹی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے فیکٹری کے دروازوں کو بند رکھا جاتا ہوگا۔کیونکہ بھتہ مافیہ جو دھمکیاں دیتی ہیں ان میں جان و مال اور دیگر قسم کے ٹھریٹ بھی شامل ہوتے ہیں۔
دو اِنٹیلی جینس اداروں کی اطلاعات کے مطابق فیکٹری کے مالک عبدالعزیز بیلہ سے 5 , کروڑ روپے تاوان مانگا گیاتھا۔ابتدائی رپورٹ کے مطابق فیکٹری کا مالک عبدلعزیز جان کے خطرے کے پیشِ نظر پندرہ دن قبل ہی بیرونِ ملک منتقل ہوچکا ہے۔ایجنسیز نے اپنی ابتدائی رپورٹ صدرِ مملکت،سندھ کے وزیر اعلیٰ،مرکزی وزیر داخلہ،کو پیش کردی ہیں۔ بتایا گیاہے کہ دو سال پہلے اور چھ ماہ پہلے بھی دو مرتبہ فیکٹری کو آگ لگ چکی ہے اور ایک ماہ قبل ماہ رمضان میں بھی اس واقعے سے قبل فیکٹری میں ایک بہت بڑی چوری کی جا چکی ہے۔ اس طرح مالکان کو تھریٹ پر تھریٹ کا سامنا رہا ہوگا۔11 ستمبر کا دن مزدوروں کی تنخواہ کی تقسیم کا دن تھا ۔دہشت گردوں کے خوف کی وجہ سے سے فیکٹری کے دروازے لاک کر دیئے گئے تھے۔
سب کو معلوم ہے حب میں اغوا کنندگان اور بھتہ مافیہ میں کون لوگ ملوث ہیں ؟؟ یہ تمام دہشت گرد بلوچستان کے پہاڑوں میں لوگوں کو نا صرف تاوان کی غرض سے لیجاتے ہیں بلکہ تمام فیکٹریوں سے مسلسل تاوان بھی وصول کرتے رہتے ہیں۔مگر ان پر ہاتھ ڈالنے والوں کے کے ہاتھ شل رہتے ہیں۔ سب سے بڑی بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سیانڈسٹریز کے لئے کوئی سیکورٹی سسٹم نہیں بنایا گیاہے۔ فیکٹریوں کی نگرانی کے لئے 16،ادارے کاغذوں پر موجود ہیں جو اپنی بھاری تنخواہوں کے ساتھ متعلقہ فیکٹریوں سے ہر ماہ ہر محکمے کے اہل کار ماہانہ بھتہ وصول کر کے یہ جا وہ جا!!!کس کا قانوں کیسی سیفٹی؟کھایا پیا ہضم کیا اور پکڑائی سے بھی محفوظ!!!کراچی کو سیاسی بازیگروں کی جنت ہے۔ان لوگوں کو سیاسی کہنا سیاست کے نام کی توہین ہے۔یہ سیا سی پریشر گروپس ہیں ۔جو ملک اور قو م کی معیشت کو گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔ان کے پالے ہوے جرائم پیش پکڑے اس لئے نہیں جاتے ہیں کہ ان پر ان کے ڈان مہربان ہیں اور یہ کھلا چھوٹ کا لائسنس لئے گھوم رہے ہوتے ہیں ۔یہ چاہے سو لوگوں کو مار دیں یا شہروں اور بستیوں کو اجاڑ دیں ہے کوئی جو ان پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت کرے!!
11 اپریل2006 عید میلاد النبی کے دن سے کراچی کو خون میں نہلانے کے ڈرامے کا آغاز کیا گیا تو یہ خون آشامی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں۔وہی قاتل وہی منصف کس سے انصاف مانگیں!!! کون اس مظلوم شہر کو انصاف دے گا کہ لمحہ بھر میں سو سے زیادہ انسانوں کو آگ اور خون میں نہلانے والے پاک و پوتر ہو کر امریکہ کے مخالف گروہوں کو لگیتے ہیںمورد الزام ٹہرانے ۔مجرم ثبوت کے ساتھ بے نقاب ہوا ، مگر سزا کسی کونہ دینے دی گئی؟؟اور پھر 12 مئی2007 کی ایک اور لہو میں نہائی شام آگئی جس میں وزیر داخلہ نے سارا شہر کنٹینروں سے پیک کرا دیااور پھر پاکستان کے منصف اعظم کا راستہ روکنے کیلئے پورے شہر کو کلاشن کوفوں کے ذریعے لہو لہان کرا دیاگیا۔لگ بھک پچاس سے زیادہ لاشیں گرا کر قاتل پھر بھی معصوم ٹہرے.
Benazir Bhutto
اس کے بعد بے نظیر کے قافلے پر مشرف کے حواریوں کی جابن سے18 ،اکتوبر 2007 کو حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 139 افراد کو موت کی نیند سلا دیا گیا اور 450 ،افراد زخمی ہوے مگر مشرف کے حواری آج تک کسی سے بھی پکڑے نہیں گئے۔کیونکہ جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے۔اس کے بعد 27 دسمبر 2007 کو بے نظیر پر پنڈی میں قاتلانہ حملہ کرایا گیا جس کی وجہ سے بے نظیر کی شہادت ہوئی اوراس حملے کے نتیجے میں کراچی میں,27 29,28 دسمبرکے دوران کئی سو لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا گیاخواتین کی عصمتیں تار تار کی گئیں۔اربوں روپوں کی جائدادیں نذر آتش کردی گئیں ۔ نہ کوئی مجرم پکڑا گیا اور نہ ہی کسی کو سزاملی کیونکہ پاکستان کھپے!!!ہر روز بھتے کی پرچی ہر روز قتل کی دھمکی کی ہر روز کراچی کی سڑکوں پر سینکڑوں افراد کو خون میں نہلا کر یہ سیاسی بازیگر کونسا بدلہ کرچی کے معصوم لوگوں سے چکا رہے ہیں؟دو سال قبل محرم کے مہینے میں حکومت کے آشیروادی غنڈوں کی سیاسی غنڈہ گردی کا کھیل ساری دنیا نے دیکھا۔
جس کے بعد نام نہاد آپریشن بھی سیاسی جماعت کے غنڈوں کے خلاف ہوا مگر نتیجہ صفر اس وجہ سے نکلا کہ سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا؟؟ سانحہ بلدیہ پرکئی سیاسی لوگ یہ استدلال بھی پیش کر رہے ہیں کہ بلدیاتی آرڈننس کے خلاف بہت بڑا ایجی ٹیشن ہونے کو تھا جس میں پیپلز پارٹی کی رہی سہی عزت بھی خاکستر ہوجاتی لہٰذای ممکن ہے کہ ا س طوفان کے آگے بند باندھ کر ان سیاسی کھلاڑیوں نے اپنے اوپر آنیوالی بلا بحن وخوبی ٹال دی ہو۔مگر انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ کبوتر کی طرح بغل میں گردن دبا لینے سے آفتیں نہیں ٹلا کرتیںہیں۔پوری قوم ان سیاسی بازیگروں سے ہاتھ جوڑ کر کہتی ہے ،اللہ کے لئے یہ خون ریزی کا ڈرامہ بند کردو ۔ہر کراچائٹ چیخ رہا ہے کہ کس کس کے ہاتھوں پہ کراچی کے لوگ اپنا لہو تلاش کریںکہ ہر اک چہرے پر ماسک اور ہاتھوں پہ دستانے دکھائی دیتے ہیں۔