کلیجہ چیر کر رکھ دیا

classical dancing kid

classical dancing kid

اچانک میرے کانوں میں ایک کلاسیکل گیت کی آواز سنائی دینے لگی۔ یہ آواز گارڈن سے باہر کہیں قریب ہی سے آ رہی تھی۔ کانوں میں رس گھولتی، سریلی آواز مسلسل میرے کانوں میں آ رہی تھی۔ ہوا میں کسی کی خوش الحانی جادو جگا رہی تھی۔ یہ کسی بڑھے بوڑھے یا جوان کی آواز نہیں تھی بلکہ خود اپنے آپ میں یہ ایک نوجوان آواز تھی۔ کسی نوخیز کی آواز۔ بالکل ان کم عمر چرواہوں کی آواز کیطرح جو اپنے مویشیوں پر نگاہ رکھے، خود گھنے مخروطی درختوں کے ٹہنوں پر بیٹھے گا رہے ہوتے ہیں۔ یہ دیکھنے کیلئے کہ یہ آواز آ کہاں سے رہی ہے جونہی میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو مجھے کچھ فاصلے پر پارک سے باہر سڑک کی پٹڑی پر لوگوں کا ایک چھوٹا سا ہجوم دکھائی دیا۔ میں نے وہاں تک جانے اور اس سریلی آواز کے مالک کو دیکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ادھر کیطرف قدم اٹھا لیے۔ میں نے سوچا کہ اس سے مجھے ایک ” خالصتاً ادبی ” مضمون لکھنے کی تحریک ضرور ملیگی۔
بھیڑ کو دونوں بازوؤں سے دائیں بائیں پرے ہٹاتا ہوا میں اس گانے والے تک پہنچنے کیلئے اپنا رستہ بناتا آگے بڑھ رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ بمشکل کوئی بارہ سال کی عمر کا ایک لڑکا، ایک رقاص کیطرح کا لباس پہنے، بن سنور کر کھڑا تماشائیوں کو متوجہ کر رہا تھا۔ وہ اپنے سر پر کاغذوں کا تاج سجائے اور تنگ بلاؤز پہنے ہوئے تھا جو بائیں جانب سے پھٹا ہوا تھا۔ زردی مائل اصل رنگت والا یہ لڑکا اسٹیج پر ایک کلاسیکل ڈانسر کیطرح ملبوس تھا۔
اسکے چہرے پر سفید پاؤڈر کے میک اپ کہ تہہ یہاں تک جمی ہوئی تھی کہ اسکی بھویں تک سفید تھیں۔ اس نے اپنے ایک پیڑ کے نیچے پر کھڑے ہو کر دوسروں پاؤں کو اوپر اٹھایا اور ایک تھالی نما ساز کو اپنے ایک ہاتھ میں لے کر ہوا میں بلند کیا۔ اس ساز کے کونوں کیساتھ گنگھرو بندھے ہوئے تھے اب وہ بڑی ہوشیاری سے اپنی ایک ایڑھی پر چکر لیتا، دائرے کی صورت میں رقص کرتا اور ساتھ ساتھ گا بھی رہا تھا۔ وہ ایک ساتھ رقص کرتا اور گیت گاتا مسلسل گھوم رہا تھا۔ رقص اور گیت یا پھر گیت اور رقص ، ایکساتھ۔ وہ ایک ایسا کلاسیکل رقص کر رہا تھا جو اکثر وبیشتر وقتی طور پر بنائے گئے اسٹیجوں پر ساری ساری رات جاری رہتا تھا۔

Begging Cup

Begging Cup

اس کے قریب ہی کوئی نو دس سال کی عمر والی لڑکی ایک رقاصہ کیطرح پوری رسموں کیساتھ سج دھج کر کھڑی تھی۔ اس نے اپنے بال اوپر کی جانب بڑے خوبصورت انداز میں باندھ رکھے تھے جن کے اوپر ایک کنگھی بھی سجی ہوئی تھی اور اسکے ماتھے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک سنہری جھالر سچی ہوئی تھی۔ اسکا چہرہ پاؤڈر سے سفید ہو رہا تھا لیکن اسکی چھوٹی چھوٹی آنکھیں سرخ تھیں۔ اپنے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا پیالہ لئے وہ تماشائیوں کے سامنے چکر لگاتی پیسے مانگ رہی تھی۔ اسکے چہرے سے تھکن اور سستی ظاہر ہو رہی تھی۔ ان دونوں کو دیکھتے ہوئے اور انکے خدوخال کو آپس میں ملاتے ہوئے میں نے جب انکی عمروں کے فرق کا اندازہ لگایا تو مجھے وہ دونوں آپس میں بہن بھائی لگے۔
نوجوان لڑکا مسلسل ناچتا، گیت گا رہا تھا۔ وہ مجمعے کے سامنے گھومتے ہوئے چکر لے رہا تھا۔ اسکا سارا بدن پسینے سے شرابور تھا۔ بلند آواز میں گانے کیوجہ سے ہر کوئی اسکے گلے کی موٹی رگیں دیکھ سکتا تھا۔ اس دوران وہ چھوٹی لڑکی ہر ایک کے سامنے پیالہ کرتے ہوئے بھیک میں پیسے مانگ رہی تھی۔ ” ہم پر رحم کریں، پیارے بھائی بہنوں ہمیں ایک دو سکے دیدو” وہ آوازیں لگا رہی تھی۔ اسکا چہرہ تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ ان دونوں کو دیکھتے ہوئے میں نے سوچا کہ لڑکے کے چہرے سے تھکاوٹ ہی نہیں بلکہ بے مسرتی بھی ٹپک رہی تھی۔ وہ خوش نہیں تھا۔ بالکل جیسے کسی مافوق الفطرت پرندے کے گلے سے نکلنے والی دلنواز موسیقی کی آواز کی مانند اسکے گلے سے نکلنے والی موسیقی، اب بے جان اور کھوکھلی سنائی دینے لگی تھی۔
میں نہ گیت سے لطف اندوز ہو سکتا تھا اور نہ ہی مجھ سے ان نو عمر لڑکے لڑکی کو دیکھا جا سکتا تھا۔ میں اس رقعت آمیز منظر کو دیکھ کر سخت کوفت محسوس کر رہا تھا۔ اچانک مجمعے میں سے ایک شخص نے ان دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے آواز لگائی۔ ” اگر تم دونوں ملکر کوئی ایک ” محبتی دوگانہ ” گائو تو میں تمہیں کچھ پیسے دونگا۔” وہ ایکطرح سے چلا رہا تھا۔ دوسرے تماشائی بھی اسکا ساتھ دینے لگے۔ ” ہاں ہاں گاؤ گاؤ، تمہیں خوب پیسے ملینگے۔”

crowd

crowd

وہ ان سے عاشق و معشوق کے دوگانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
میں نے اس ہجوم سے بھاگ جانا چاہا۔ یہ ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ میں اردگرد حرکت بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس سے پہلے اس طرح کے کسی مجمع میں میں نے اتنی بھیڑ کبھی نہیں دیکھی تھی۔
سچ تو یہ ہے ” مرغوں کی لڑائی ” دیکھنے والے تماشائیوں کا مجمع بھی اتنا بے سرا اور اتنا بڑا میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر میرا دل ڈوبنے لگا۔ وہ دونوں بھائی اور چھوٹی بہن، تماشائیوں کے آگے انکار نہ کر سکے۔ انہیں ناچنا اور گانا ہی تھا سو وہ ناچتے اور گانے لگے۔ لڑکے نے ایک ہاتھ اپنے کولہے پر رکھا اور دوسرا ہاتھ سر کے اوپر لیجاتے ہوئے لہرایا اور رقص کے انداز میں اپنے بائیں پاؤں کی ایڑھی کو آہستہ آہستہ زمین پر مارنا شروع کیا اور ایک لے کے رنگ میں آواز لگائی” آ، آ ” میری پیاری بہنا، آ ہم ایکبار پھر قسمت آزمائیں، آ، بہنا ہم کوشش کر دیکھیں، چھوٹی بہن نے مانگنے والا پیالہ بوسیدہ سے کپڑوں کی ایک مچیلی کچیلی گٹھڑی کے پاس رکھا اور رقص کے انداز میں اپنا ایک ہاتھ اپنے کولہے پر رکھا اور دوسرے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا کاغذی پنکھا لے کر گانے کے لے میں آواز لگائی ” او میرے محبوب” تمہاری یہ چھوٹی سی کنیز یہاں تمہارے لیے تیار کھڑی ہے۔ اب ان دونوں نے ایکدوسرے کی لے میں لے ملانا شروع کر دی تھی۔ چھوٹا لڑکا تان لگاتا ”آ میری پیاری آ” تو ہی تو ہے جسے میں ان سب شہر والوں سے بڑھ کر محبت کرتا ہوں، آ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آ بھی جا اور میری عظیم رقاصہ ، آ میرے پاس ادھر آ میری محبوبہ!
میں اس سوانگ سے اس قدر اکتا گیا تھا کہ میرا سربخود ہی جھک گیا تھا۔ محض چند پیسے کمانے کی خاطر بچوں کو یہ سوانگ رچائے میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔ ان بچوں کے پاس پیسے کمانے اور پیٹ پالنے کا دوسرا کوئی رستہ نہیں تھا۔ اپنے جیسے بھکاریوں کی دنیا میں اب انہیں بھیک مانگنے کے نئے طریقے اپنانے تھے۔ گانے اور ناچنے کے ذریعے ہی شائد کچھ اضافی پیسے کما بھی سکتے تھے اور شائد اپنا پیٹ بھر بھی سکتے تھے لیکن غریب اور بھوک کے مارے ہوئے کو تو بھیک مانگنے کیلئے آہ و زاری کرنا، رونا اور منت سماجت کرنی پڑتی ہے لیکن انکے پاس ایسا کرنے کیلئے کوئی وقت نہیں تھا۔ ان کی آہیں اور رونا بھی انکا نہیں رہا تھا۔ اب انہیں اپنی غربت و بھوک بھلا دینے کیلئے گانے اور ناچنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ اگر کوئی بیمار مرتا ہوا شخص صرف اسلئے تھوڑی سی زیادہ افیون کھا لے کہ وہ کسی خوف کے بغیر موت کا سامنا کر سکے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان دونوں کو ناچتے دیکھ کر میرے ذہن میں نجانے کیا کیا سوال ابھرنے لگے تھے۔

لڑکا اپنی لے میں ابھی تک گا رہا تھا۔ او ہاں تو ہی تو ہے میری محبوب بیوی جسے میں دل و جاں سے پیار کرتا ہوں، میں تم پر اپنا سب کچھ نثار کرتا ہوں اور میری سجنیا! میں مہادیوتا کی قسم کھاتا ہوں میں کبھی تجھ سے بیوفائی نہیں کرونگا۔ بھگوان مجھے بھون کر رکھ دے اگر میں ایسا کروں، او میری محبوبہ!! گانے کے بول کی لے ختم کرتے ہی وہ ناچنے لگتا تھا اور پھر فوراً ہی اسکی چھوٹی بہن آگے بڑھ کر اسکے چہرے پر اپنا پنکھا جھلانے اور گانے کے جواب میں وہیں سے گانا شروع کر دیتی جہاں اسکے بھائی نے چھوڑا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

small girl singing

small girl singing

وہ پنکھا جھلاتی، ناچتی، بڑی خوبصورتی سے گانے کی لے اٹھاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تک ہماری قسمت ہمیں اکٹھا رکھے یاد رکھو میں تمہاری ہی ہوں۔ صرف تمہاری ہمیشہ کیلئے، وہ مسحور کن لے میں گیت کے بول آگے بڑھاتی، دونوں بچے یہ غمناک دوگانہ کچھ اسطرح سے گا رہے تھے کہ جیسے انہوں نے اپنا کلیجہ نکال کر رکھ دیا ہو۔ میں اب وہاں مزید نہیں ٹھہر سکتا تھا اور جونہی میں نے پلٹنے کیلئے موڑ لیا میرے پیچھے کھڑا ہوا ایک آدمی اونچی آواز میں بولا ” یہ بچے کتنی مسحور کن آواز رکھتے اور کتنی غمناک و درد آمیز لے میں گاتے ہیں۔ انہیں بس تھوڑی سی تربیت دیے جانے کی ضرورت ہے یہ بہت ہی اعلیٰ موسیقار بن سکتے ہیں۔
ایک اور آدمی جو قریب ہی کھڑا تھا اس نے بھی پہلے کی ہاں میں ہاں ملائی، ہاں ہاں، یہ بہت ہی اچھا خیال ہے کیوں نہ ہم انہیں کمپنی کے پاس لے چلیں؟ تمہیں یاد ہے جب ہم فلمبندی کر رہے تھے کمپنی نے ہڑتال کر دی تھی۔ تمہیں یاد نہیں ہمیں ” پلے بیک سنگرز” کی ضرورت ہے؟
کتنا اچھا خیال ہے تمہارا اور بالکل ٹھیک سمے پر تمہاری سوچ کا جواب نہیں، بابو جی تو ہم سے بہت ہی خوش ہونگے۔ ” پہلا بچوں پر نگاہ جمائے ہوئے بولا اور ان بچوں کو جو محض بھکاری ہیں انہیں تو زیادہ معاوضہ ادا کرنا بھی کوئی ضروری نہیں ہو گا۔ (ان دنوں شہر میں واقع ملک کے سب سے بڑی فلمی اسٹوڈیو میں ہڑتال چل رہی تھی۔)
میں نے ان دونوں آدمیوں کی گفتگو سنی تو مجھے یوں لگا گویا میں اچانک آئے زلزلے میں گر جانیوالی کسی عمارت کے ملبے تلے دبا ہوا ہوں۔ جونہی میں بھیڑ میں سے اپنے لیے رستہ بناتا آگے بڑھنے لگا ان کی گفتگو کا آخری جملہ میرے کانوں میں سنائی دیا۔ ہاں لیکن ہمیں بابو جی سے اچھی رقم وصول کرنی ہو گی۔
انکا یہ آخری جملہ سنتے ہی میں وہاں سے بھاگ نکلا۔ میں اتنا تیز دوڑ رہا تھا کہ جیسے میں کسی جلتی ہوئی عمارت سے چھلانگ لگا کر باہر کود آیا تھا اور اب اس آگ سے بچنے کیلئے سرپٹ بھاگ رہا تھا۔

man running fast

man running fast

سانس لینے کیلئے جونہی میری رفتار قدرے کم ہوئی مجھے ایک بس کنڈیکٹر کی آواز سنائی دی۔ آئیے آئیے جناب، بس پر سوار ہونے کیلئے ادھر سے آئیے جناب۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوہو بس روکو بس روکو، بس کنڈیکٹر ڈرائیور کر متوجہ کرتا ہوا مجھے بھی آوازیں دے رہا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ میں بس میں سوار کیسے ہوا اور نہ ہی میں یہ جان سکا کہ میں کسطرف جا رہا ہوں۔ میرے ذہن میں اس وقت صرف یہی خیال تھا کہ میں کوئی ”خالصتاً ادبی ” مضمون کبھی بھی نہیں لکھ سکوں گا۔

ّ( مترجم: نصر ملک، کوپن ہیگن )