امریکہ کی طرف سے پاکستان پر الزام تراشیوں اور دھمکیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال پر مشترکہ قومی حکمت عملی مرتب کرنے کے لئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 29ستمبر کو کل جماعتی کانفرنس طلب کر لی ہے۔ وزیراعظم نے اس سلسلے میں اتوار کو قومی اتفاق رائے حاصل کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ٹیلیفون پر رابطے کئے اور تازہ ترین صورتحال کے حوالے سے انہیں اعتماد میں لیا۔ یہ امر نہایت اطمینان بخش ہے کہ ملک کے داخلی سیاسی معاملات پر اختلافات کے باوجود کسی بھی سیاسی پارٹی یا اس کے لیڈر نے اس مسئلے پر کسی طرح کے تحفظات کا اظہار نہیں کیا اور سب نے یک زبان ہوکر ملکی سلامتی اور قومی خودمختاری کے تحفظ کے لئے حکومت کو بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ زمینی حقائق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وطن عزیز کو خطرات سے بچانے کے لئے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرے۔ پاکستان کے بارے میں امریکہ کے ارادے اس وقت خطرناک نظر آرہے ہیں۔ امریکی سینیٹ میں پاکستان کے خلاف تقریریں ہورہی ہیں جن میں اس پر حملے کے آپشن کھلے رکھنے اور فوجی کارروائی کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ امریکی نائب صدر، وزیر دفاع اور وائٹ ہاس کے ترجمان سے لے کر فوجی کمانڈروں تک کئی ذمہ دار لوگ ایک ایسے ملک کے خلاف بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں جس نے افغانستان میں امریکہ کا ساتھ دے کر بے پناہ جانی اور مالی نقصانات اٹھائے ہیں۔ اب جبکہ امریکہ نیٹو افواج کی بھرپور مدد کے باوجود افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکا تو اپنی ناکامی کی حقیقی وجوہات تلاش کرنے کی بجائے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے پر تل گیا ہے۔ امریکی لیڈرشپ اس وقت افغانستان میں بری طرح ناکامی کے باعث جھنجھلاہٹ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہے جس کا اظہار وہ پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات لگا کر کررہی ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کی حمایت کررہا ہے۔ یہ دعوی کرتے وقت امریکی لیڈر اور کمانڈر اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک امریکہ نے قائم کیا تھا اور امریکی ایک عرصہ تک دوسرے طالبان گروپوں کو کمزور کرنے کے لئے اس کی پشت پناہی کرتے رہے ہیں۔ موجودہ وقت میں بھی امریکی پالیسی ساز طالبان کے مختلف گروپوں سے مذاکرات میں مصروف ہیں اور افغانستان میں حالات معمول پر لانے کے لئے ان کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مگر کسی نے امریکہ پر دہشت گردوں سے ساز باز کا الزام نہیں لگایا۔ جہاں تک حقانی نیٹ ورک کا تعلق ہے، اول تو اس کے جنگجو افغانستان ہی میں سرگرم عمل ہیں جس پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجی عملداری ہے، پاکستان میں ان کا کوئی وجود نہیں۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر کو افغانستان میں ناکامی کے حوالے سے عوام میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ بچانے کے لئے کسی بہانے کی تلاش تھی اور وہ بہانہ انہوں نے حقانی نیٹ ورک سے پاکستان کے مبینہ تعلق کی شکل میں تلاش کرلیا ہے۔ امریکہ کا یہ طرزعمل کوئی نیانہیں، وہ اس طرح کے حیلے بہانے دنیا کے کئی خودمختار ملکوں خصوصا اسلامی ممالک کو تاراج کرنے کیلئے استعمال کرچکا ہے اور مسلسل کررہا ہے۔ پاکستان میں حکومتوں کو شاید کوئی غلط فہمی رہی ہو گی مگر اہل الرائے طبقات کو اس سے خیر کی توقع کبھی نہیں تھی۔ امریکہ کے سیاسی اور فوجی لیڈروں کے معاندانہ بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ شاید اس نے پاکستان کے خلاف کسی فوجی مہم جوئی کا ارادہ کر لیاہے۔ اس سلسلے میں اس نے بھارت کی آشیرباد حاصل کرنے کیلئے نئی دہلی میں بھارتی لیڈروں سے رابطے کئے ہیں اور بھارتی وزیر خارجہ نے جلدبازی میں پاکستان کے خلاف امریکی الزامات کی تائید میں بیان داغ دیا ہے جو افسوسناک ہے۔ بھارت اچھی طرح جانتاہے کہ امریکہ نے آج نہیں تو کل اس خطے سے چلے جانا ہے جبکہ پاکستان اور بھارت کو یہیں ایک دوسرے کے پڑوس میں رہنا ہے۔ان کا مستقل مفاد امریکہ کے ساتھ نہیں ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے۔ اسلئے اسے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی سوچ اپنانی چاہئے۔ امریکہ کی پیروی میں افغانستان کی طرف سے بھی الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے حالانکہ بھارت کی طرح اسے بھی پاکستان کے پڑوس میں رہنا ہے۔ پاکستان نے جنگ کے ستائے ہوئے لاکھوں افغانیوں کو پناہ دے رکھی ہے۔ ہم مذہب کے علاوہ بھی ایک دوسرے کیساتھ کئی رشتوں میں منسلک ہیں۔ افغان حکومت کو پاکستان پر الزامات لگاتے وقت یہ تمام حقائق سامنے رکھنے چاہئیں اور یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ افغانستان سے آئے روز سیکڑوں مسلح افراد جتھوں کی شکل میں پاکستان کے اندر آکرسکیورٹی فورسز اور بے گناہ قبائلی عوام پر حملے کرتے ہیں۔ پاکستان نے یہ حملے روکنے پر زور دیا ہے مگر افغان حکومت یا امریکہ پر ان کی پشت پناہی کا الزام نہیں لگایا۔ افغان حکومت کو بھی پاکستان پر الزامات لگانے سے گریز کرنا چاہئے۔امریکی الزام تراشی اور دھمکیوں سے حالات اتنے سنگین ہوگئے ہیں۔ ایک طرف صورتحال کو معمول پر لانے کیلئے سفارتی سطح پر کوششیں کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لئے چیف آف آرمی اسٹاف کی زیرصدارت اجلاس میں کور کمانڈرز کانفرنس نے اپنا لائحہ عمل تیارکرلیاہے۔ اجلاس میں جہاں کشیدگی دور کرنے کیلئے ضروری اقدامات کی حمایت کی گئی وہاں یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ افغانستان سے پاکستان پر حملوں اور دراندازی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا اورایسی کارروائیوں کا سختی سے جواب دیا جائے گا۔ سفارتی کوششوں کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر خود امریکہ میں ہیں اور نیویارک میں مختلف تقریبات سے خطاب کے دوران پاکستان کا موقف شدومد سے پیش کر رہی ہیں۔ انہوں نے ایک ٹی وی چینل سے انٹرویو میں درست کہا ہے کہ ہمارے صبر کو نہ آزمایا جائے ورنہ مذاکرات کے دروازے بند ہوسکتے ہیں۔ عوام ہم سے پوچھتے ہیں کہ امریکہ کا اتحادی بن کر ہم نے 35ہزار سے زائد شہری اور فوجی جوانوں کو کھویا اور اربوں ڈالر کا نقصان اٹھایا اس کے بدلے میں ہمیں کیاملا؟ ایک اور اہم پیشرفت یہ ہے کہ چینی نائب وزیراعظم ہنگامی دورے پر پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ چین ہمارا آزمودہ دوست ہے، اس نے ہمیشہ آزمائشوں میں پاکستان کا کھل کرساتھ دیا ہے۔ اس موقع پر ان کی پاکستان آمد قوم کیلئے ایک حوصلہ افزا پیغام ہے۔ہماری قیادت کو چینی نائب وزیر اعظم سے امریکی دھمکیوں کے نتیجے میں پیدا ہونیوالی صورتحال پر بات کرنی چاہئے۔ وزیراعظم نے موجودہ صورتحال میں سیاسی جماعتوں کی کانفرنس بلا کر ایک مثبت قدم اٹھایا ہے۔ اس میں دوسری قومی جماعتوں کے علاوہ سندھ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے قوم پرستوں کو بھی ضرور شریک کرنا چاہئے جنہیں عام طور پر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ پاکستانی قوم کی یہ قابل فخر تاریخ ہے کہ ملک جب بھی کسی مشکل صورتحال سے دوچار ہوتا ہے تو وہ یک جان ہوجاتے ہیں۔ چشم فلک نے ماضی میں اتحاد و یکجہتی کے یہ مظاہرے کئی باردیکھے اور آج پھر تورخم سے کراچی تک عوام کے تمام طبقات میں ہم آہنگی اور یگانگت کے پرجوش مظاہر دیکھنے میں آرہے ہیں۔ عوام کا یہ جذبہ حب الوطنی اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان قائم رہنے کیلئے بناہے اور ہمیشہ قائم رہے گا،کوئی بھی دشمن اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا۔