کوئی پھول دھوپ کی پتیوں میں
Posted on March 31, 2012 By Adeel Webmaster بشیر بدر
Badan Phool
کوئی پھول دھوپ کی پتیوں میں ہرے ربن سے بندھا ہوا
وہ غزل کا لہجہ نیا نیا نہ کہا ہوا نہ سنا ہوا
جسے لے گئی ہے ابھی ہوا وہ ورق تھا دل کی کتاب کا
کہیں آنسوئوں سے مٹا ہوا کہیں آنسوئوں سے لکھا ہوا
کئی میل ریت کو کاٹ کر کوئی موج پھول کھلا گئی
کوئی پیڑ پیاس سے مر رہا ہے ندی کے پاس کھڑا ہوا
وہی خط کہ جس پہ جگہ جگہ دو مہکتے ہونٹوں کے چاند تھے
کسی بھولے بسرے سے طاق پر تہہ گرد ہو گا دبا ہوا
مجھے حادثوں سے سجا سجا کے بہت حسین بنا دیا
مرا دل بھی جیسے دلہن کا ہاتھ ہو مہندیوں سے رچا ہوا
وہی شہر ہے وہی راستے وہی گھر ہے اور وہی لان بھی
مگر اس دریچے سے پوچھنا وہ درخت انار کا کیا ہوا
مرے ساتھ جگنو ہیں ہمسفر، مگر اس شرر کی بساط کیا
یہ چراغ کوئی چراغ ہے نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا
بشیر بدر