میں نے 2000ء میں میٹرک کا امتحان دیا تھا۔ پڑھائی میں ہمیشہ سے میں کمزور رہا تھا۔ اس لیے امتحان دیتے ہی میں نے ایک آٹو ورکشاپ میں ملازمت کر لی۔ اس سے پہلے بھی سکول سے چھٹی ہونے کیبعد میں کام سیکھنے اس ورکشاپ میں جاتا تھا۔ وہاں میری خاصی واقفیت ہو گئی تھی۔ پرچے دیتے ہوئے مجھے یہ احساس ہو گیا تھا کہ میں شاید میٹرک میں فیل ہو جائوں گا۔ میرے حق میں بہتر یہی تھا کہ رزلٹ آنے سے پہلے خود کفیل ہو جائوں تاکہ والدین کی ڈانٹ پھٹکارنے سے بچ سکوں۔ ورکشاپ والے مجھے اور میرے کام کو جانتے تھے انہوں نے مجھے رکھ لیا۔ اپنے اچھے اخلاق کیوجہ سے گاہکوں میں میری مقبولیت کو دیکھتے ہوئے انہوں نے مجھے معقول تنخواہ دی چنانچہ میں نے بھی وہاں جی لگا کر کام شروع کر دیا۔ چند ماہ بعد جب میٹرک کا نتیجہ آیا تو حسب توقع میں فیل ہو گیا تھا۔ اس دوران میں نے تین تنخواہیں والد صاحب کو دیدی تھیں۔ اس لیے انہوں نے اس بات سے فوراً سمجھوتہ کر لیا کہ یہ لڑکا پڑھائی کے قابل نہیں ہے لہٰذا جو ہنر سیکھ چکا ہے۔ اسے اس میں ترقی کرنی چاہیے۔ میں اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ اپنے ہنر کیساتھ ساتھ میں گاہکوں پر بھی پوری توجہ دیتا تھا اور جب تک وہ مطمئن نہ ہو جاتے میں انہیں جانے نہیں دیتا تھا۔ اس وجہ سے وہ مجھ پر بھروسہ کرنے لگے تھے۔
ان گاہکوں میں ریاض احمد نامی نوجوان بھی شامل تھا جو نہایت خلیق تھا۔ اسکے والدین کا شمار کھاتے پیتے گھرانوں میں ہوتا تھا۔ اکثر اپنے ڈرائیور کیساتھ اسکے گھر والے اپنی گاڑیاں ٹھیک کروانے ورکشاپ آتے رہتے تھے۔ ریاض کو خدا جانے میرے اندر کیا خوبی نظر آئی کہ میرا خیال رکھنے لگا۔ یہ جذبہ رفتہ رفتہ ہماری دوستی میں بدل گیا۔ اسکے اندر کسی قسم کی خوبی نہیں تھا۔ دنیاوی نقطہ نگاہ سے میرا اس کا کوئی جوڑ نہیں تھا۔ وہ امیر فیملی سے تعلق رکھتا تھا جبکہ میں غریب گھرانے کا لڑکا تھا مگر اس نے اپنے تعلقات میں اونچ نیچ کو کبھی آڑے نہیں آنے دیا۔ اپنی تقاریب میں مجھے مدعو کرتا اور فخر سے میرا تعارف اپنے مہمانوں سے کرواتا تھا۔ وہ مجھے اکثر اپنے بنگلے پر بلا لیتا اور کھانا کھلائے بغیر نہیں بھیجتا تھا جبکہ میں ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے اسے کئی دفعہ منع کیا کہ وہ مجھے اپنے یہاں نہ بلایا کرے کیونکہ جواباً میں ایسا نہیں کر سکتا لہٰذا وہ اپنی دوستی کو ورکشاپ تک محدود رکھے لیکن وہ میرے اس مطالبے پر ناراض ہو گیا۔ کہنے لگا کہ میں کبھی ایسا خیال دل میں نہ لائوں۔ اس کے گھر والے بھی اچھے لوگ تھے۔ انہوں نے ہماری دوستی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ وہ کہیں سیروتفریح کیلیے جاتے تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ میرے دل میں ان لوگوں کی بے حد عزت تھی۔
ٍٍٍٍ ہماری اس دوستی کو ایک سال ہو چلا تھا میرے گھر والے اسے بے جوڑ دوستی کہتے تھے۔ انکا خیال تھا کہ دوستی ہمیشہ اپنی حیثیت والے لوگوں سے کرنی چاہیے ورنہ انسان کبھی نہ کبھی نقصان اٹھاتا ہے۔ مگر مجھے ریاض کی دوستی نے کبھی ایسی آزمائش میں مبتلا نہ ہونے دیا تھا کہ میں گھر والوں کی اس بات سے اتفاق کرتا لہٰذا میرا ریاض سے خلوص و محبت کا رشتہ قائم رہا۔ ایک روز ریاض نے مجھے ورکشاپ پر فون کر کے بتایا کہ ان کا ڈرائیور نہیں آیا اور انکے ابو کو شہدا پور سے کراچی پہنچنا ہے۔ ان کی جرمنی کی فلائٹ ہے مجھے کسی ضروری کام سے حیدر آباد یونیورسٹی جانا ہے۔ اس لیے میں انکے ساتھ چلوں، ریاض حیدر آباد تک ہمارے ساتھ ہو گا۔ وہاں سے مجھے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنی ہو گی اور اسکے ابو کو کراچی ائیر پورٹ چھوڑ کر گاڑی واپس حیدر آباد لانا ہے۔ وہاں ریاض احمد کو یونیورسٹی سے پک کر کے ہمیں واپس شہدا پور آنا ہے۔ ریاض نے ورکشاپ کے مالک سے الگ بات کر لی تھی۔ اسلیے انہوں نے مجھے چھٹی دیدی۔ میں فوراً ریاض احمد کے گھر پہنچا۔ وہ میرا انتظار کر رہے تھے۔ ہم حیدر آباد روانہ ہو گئے۔ ریاض حیدر آباد میں یونیورسٹی کے گیٹ پر اتر گیا۔ وہاں سے میں اسکے ابو کو لے کر کراچی روانہ ہوا۔ فلائٹ کا وقت قریب آتا جا رہا تھا۔ ریاض کے ابو مجھے بار بار ہدایت دے رہے تھے کہ میں گاڑی تیز چلائوں ورنہ فلائٹ نکل جائیگی۔ میں نے بھی فل رفتار سے گاڑی چلائی اور انہیں وقت سے پہلے ائیر پورٹ پہنچا دیا۔ مگر اس تیز رفتاری نے میرے اعصاب شکستہ کر دیے تھے میں بے حد تھکن محسوس کر رہا تھا میں سہراب گوٹھ سے چائے پی مگر ذہن پر چھائی کوفت اور تھکن کم نہ ہوئی۔ میں نے گاڑی سنبھالی اور گھر چلا گیا تاکہ کچھ آرام کر لوں۔
niqab girls
بھی تھوڑی دور چلا تھا کہ سڑک کے کنارے کھڑی دو لڑکیوں کو دیکھا جو ہاتھ ہلا ہلا کر گاڑی روکنے کا اشارہ کر رہی تھیں۔ لڑکیوں کو دیکھ کر ویسے بھی لڑکوں کا جی خوش ہو جاتا ہے۔ میں نے فوراً گاڑی روک لی۔ لڑکیوں نے برقعہ اوڑھا ہوا تھا مگر چہرے کھلے تھے جو بے حد معصوم اور خوبصورت تھے۔ نوجوانی میں تو یوں بھی ہر لڑکی خوبصورت لگتی ہے لیکن وہ واقعی خوش شکل تھیں۔ ان میں سے ایک نے نہایت لجاجت سے کہا کہ انہیں ابھی حیدر آباد میں اپنے ایک قریبی عزیز کی وفات کی خبر ملی ہے اور انہیں میت میں شرکت کیلئے حیدر آباد جلدی پہنچنا ہے اگر میں ادھر ہی جا رہا ہوں تو انہیں ساتھ لے لوں، وہ وقت پر پہنچ جائیں گی۔
میرے لیے یہ نہایت خوشی کی بات تھی کہ اس تھکا دینے والے سفر میں انہیں بٹھا لوں، فوراً ڈرائیونگ سیٹ کیساتھ والا دروازہ کھول دیا۔ ایک لڑکی آگے بیٹھ گئی اور دوسری پیچھے۔ اسوقت میں ٹول پلازہ سے ذرا پیچھے تھا۔ میں سبک رفتاری سے گاڑی چلا رہا تھا اور دل ہی دل میں اس سے بات کرنے کا بہانہ ڈھونڈ رہا تھا۔ گاڑی سپر ہائی وے پر آتے ہی مجھے سر پر کسی نوکیلی شے کے چبھنے کا احساس ہوا۔
boy and girl in car
پیچھے بیٹھی لڑکی نے پستول میرے سر پر رکھ دیا اور کہا کہ خبردار زیادہ ہوشیار بننے کی کوشش مت کرنا اور ہم جہاں جہاں کہیں گاڑی موڑتے جانا ورنہ میں گولی مارنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں کروں گی۔ اس صورتحال نے میرا دماغ یکلخت مائوف کر دیا۔ لڑکی کے تیور بتا رہے تھے کہ جو وہ کہہ رہی ہے وہ کر گزریگی۔ اگر میں انکے کہے پر عمل کرتا تو گاڑی اور جان سے ہاتھ دھو لیتا۔ موت کا ایک دن مقرر ہے مگر گاڑی چلی جاتی تو میری ریاض احمد سے دوستی شک و شبہات کی نذر ہو جاتی اور وہ مجھے جھوٹا یا چور سمجھنے لگتا۔ اس دوستی کو مجھے ہر حال میں بچانا تھا۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے ایکسیلیٹر پر پائوں کا دبائو بڑھا دیا۔ پہلے گاڑی ایک سو بیس کی رفتار پر چل رہی تھی پھر ایک سو اسی کی رفتار سے چلنے لگی۔ میں نے لڑکی سے کہا ” تم گولی چلاؤ اور پھر تماشہ دیکھنا میرے ساتھ ساتھ تمہارا بھی کیا حشر ہو گا۔ میرے سر میں گولی گھسے گی اور گاڑی اسی کی رفتار سے لڑکھڑاتی ہوئی کہاں کی کہاں پہنچ جائیگی، پھر میں بچوں گا نہ تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دونوں لڑکیاں چلانے لگیں کہ گاڑی کی اسپیڈ ہلکی کرو ورنہ ہم تمہیں گولی مار دیں گے۔ میں نے جواب دیا۔ ” میں مرنے کیلئے خود کو تیار کر چکا ہوں، تم اپنی فکر کرو۔ ” میں نے اسپیڈ کم نہ کی، وہ گالیاں دینے لگیں۔ میں نے دل میں ٹھان لی تھی کہ آج میری اور ریاض کی دوستی کی آزمائش ہے اور مجھے اس میں پورا اترنے کیلئے اپنی جان کا نذرانہ دینا ہوگا۔ میری ماں سچ کہتی تھی کہ امیر سے دوستی کی آزمائش بڑی سخت ہوتی ہے۔ مجھ پر یہ لمحات کتنے کٹھن اور صبر آزما تھے۔ یہ میں جانتا ہوں مگر جب جان ہتھیلی پر رکھ لی تو پیچھے ہٹنے کا نہ سوچا اور گاڑی کو اسی اسپیڈ سے چلاتا رہا۔ لڑکی نے ریوالور میرے سر سے ہٹا لیا تھا۔ وہ شاید جان گئی تھیں کہ انکا پالا کسی دیوانے سے پڑ گیا ہے۔
میں نے پولیس پوسٹ پر جا کر گاڑی روکی اور لڑکیوں کو انکے حوالے کیا۔ انہیں انکے انجام تک پہنچانے میں خاصی دیر لگ گئی۔ پولیس نے انکے پاس سے ریوالور برآمد کر لیا تھا، اس لیے مجھے زیادہ پریشانی نہیں اٹھانی پڑی۔ ورنہ ایسی صورت میں مجھے انہیں مجرم ثابت کرنا بھی مشکل کام تھا۔ مگر یہاں قدرت نے میری مدد کی۔ پولیس نے معمولی پوچھ گچھ کیبعد ان دونوں لڑکیوں کو دھر لیا اور مجھے واپس جانے کی اجازت مل گئی۔ حیدر آباد تک پھر میں اڑتا ہوا پہنچا۔ ریاض احمد کو یونیورسٹی سے لیا۔ اسے دیر ہونے کیوجہ بتائی وہ میری بہادری سے متاثر ہوا۔ کہنے لگا” ایسے وقت انسان کو اپنی جان کی پرواہ کرنی چاہیے تم نے خواہ مخواہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالا” میں نے دل میں سوچا کہ اگر خدانخواستہ گولی چل جاتی تو شاید کوئی بھی یقین نہ کرتا کہ میں سچ بول رہا ہوں یا جھوٹ۔ مجھے اپنی عزت اور دوستی دونوں عزیز تھیں۔ اسلیے جان پر کھیل کر ان دونوں کو بچا لیا تھا۔