14 جنوری کا لانگ مارچ کیا رنگ لائے گا ، کیا ہونے جارہا ہے، کون کروا رہا ہے، کیوں کروا رہا ہے، کس لیے کروا رہا ہے، کیا مقاصد ہیں ۔ان تمام باتوں پر تبصرے زور و شور سے میڈیا پر جاری و ساری ہیں اور سب اپنی اپنی سوجی سے حلوہ تیار کرتے نظر آرہے ہیں۔کوئی اپنے دل کی بھڑاس کیسے نکال رہا ہے کوئی کیسے نکال رہا ہے۔ کوئی ڈاکٹر طاہر القادری کو امریکی ایجنٹ کہے رہا ہے تو کوئی ایجنسیوں کا آلہء کار بنا رہا ہے کوئی جنرل مشرف کا جانشین بتلا رہا ہے تو کوئی جمہوریت کا دشمن گردان رہا ہے ۔ اور ان تمام ایشوز پر ہمارا الیکٹرانک میڈیا جس طرح پھاپا کُٹنی کا کردار ادا کرتا نظر آرہا ہے وہ واقعی دیکھنے لائق ہے۔ غیر جانبدار میڈیا میں جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک سینئر تجزیہ نگار نے تو متحدہ قومی موومنٹ کے لانگ مارچ میں شرکت کے اعلان پر زرداری صاحب کو یہ مشورہ دے ڈالا کے سندھ میں بلدیاتی نظام ہی ختم کردیں اور سندھی قوم پرستوں کو اپنا رفیق بنا لیں۔
یہ کس طرح کی فضاء قائم کی جارہی ہے ۔عوامی مفاد کو نظر انداز کرکے جمہوریت سے زیادہ جمہوریت دانوں کی فکر میں مبتلا یہ میڈیا جانے کس آئین کے تحت سولہ سولہ وزارتِ رکھنے والے فردِ واحد کو جمہوریت کا پیکر بتاتے نہیں تھک رہا۔ اور اُنہی جمہوری آمروں کی طوطی بولتا نظر آتاہے جواپنی آمرانہ سوچ کو اب اپنی الادوں میں منتقل کرکے ایک نئے دورِ غلامی کا آغاز کر نا چاہتے ہیں۔میڈیا کو اپنے کردار کا جائزہ لینا ہو گا ورنہ اس ملک کی عوام سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کا بھی احتساب شروع کردے گی پاکستانی میڈیا یہ بات خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ عوام کیا چاہتے ہیں ۔ یہ کیا مانگ رہے ہیں ۔ ایسی نام نہاد جمہوریت کاراگ الاپنے سے کیا فائدہ جس کے لیے سیاستدانوں کو عوام کے ووٹوں کے بجائے سیاسی لوٹوں کی ضرورت پڑتی ہو۔ میڈیا کی طرح پاکستان کا ہر باشعور شہری جمہوریت کا حامی ہے لیکن حقیقی معنوں میں جمہوریت کا قیام ضروری ہے، آئین کی بالادستی کس کو منظور نہیں ، آئینِ پاکستان مکمل طور پر نافظ نہ ہونے کے باعث آج ہم پریشانیوں کا شکار ہیں۔ حقیقی جمہوریت قائم کرنے کے لیے ہر ایک کو اپنا کردار غیر جانبدار طریقے سے نبھانے کی ضرورت ہے۔ میڈیا بھی ایسے لوگوں کا ساتھ دے جو اس موجودہ ناکام نظامِ حکومت سے تنگ آچکے ہیںاور ملک میں حقیقی تبدیلی کے خواں ہیں ،سب ایک ہوکر ریاست میں ظلم وجبر کے نظام کا خاتمہ کر کے آئین کی بالادستی ممکن بنائیں۔ ملکی سالمیت اور حقیقی جمہوریت کا قیام اب صرف و صرف اسی بات میں پوشیدہ ہے کہ ملک کومکمل طور پر آئین کے تحت چلایا جائے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کا قول ہے اس بات پر غور کیا جائے کہ کوئی کیا کہہ رہا ہے بجائے اس کے کہ کون کہہ رہا ہے۔
Dr Tahir Ul Qadri
تحریکِ منہاج القرآن کے سربراہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے جس مثبت سوچ کو جنم دیتے ہوئے کرپٹ نظام کے خلاف طبلہء جنگ بجایا ہے اور ملک سے استحصالی نظام کے خاتمے کا عَلم اٹھایا ہے ایم کیو ایم اس کی مکمل حمایت اور سپورٹ کرتی نظر آتی ہے جس کے بعد یہ لانگ مارچ مزید اہمیت کا حامل ہو گیا ہے اور 14 جنوری کے لانگ مارچ کو ایک نئی طاقت میسر آگئی ہے اور ممکن ہے کہ مسلم لیگ ق بھی اس مارچ میں شامل ہوجائے اس کے علاوہ ڈاکٹر طاہر القادری نے عوامی سطح پر دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی رابطے شروع کر دئے ہیں۔ اگر ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اس لانگ مارچ کی حمایت کا اعلان کر دیا تو سوچیں یہ عوام کا سمندر کیا رنگ لائے گا ۔لہذا اس سے پہلے یہ سمندر ایک طوفان کی شکل اختیار کرکے کُوکی فضاء بنائے حکمران نیک نیتی کے ساتھ عوامی امنگوں کے مطابق آئین کے تحت انتخابی اصتلاحات کے ساتھ ایک غیرجانبدار نگراں سیٹ اپ کا اعلان کریں۔ جس پر پاکستان کے عوام ،پاکستان کا میڈیا ، پاکستان کے عوامی مقتدر حلقے ریاستی ادارے سب متفق ہوں۔ لیکن کُو سے پہلے۔۔۔!
کُو سے پھلے
Posted on January 2, 2013 By Geo Urdu کالم
Shortlink:
Dr Tahir Ul Qadri
14 جنوری کا لانگ مارچ کیا رنگ لائے گا ، کیا ہونے جارہا ہے، کون کروا رہا ہے، کیوں کروا رہا ہے، کس لیے کروا رہا ہے، کیا مقاصد ہیں ۔ان تمام باتوں پر تبصرے زور و شور سے میڈیا پر جاری و ساری ہیں اور سب اپنی اپنی سوجی سے حلوہ تیار کرتے نظر آرہے ہیں۔کوئی اپنے دل کی بھڑاس کیسے نکال رہا ہے کوئی کیسے نکال رہا ہے۔ کوئی ڈاکٹر طاہر القادری کو امریکی ایجنٹ کہے رہا ہے تو کوئی ایجنسیوں کا آلہء کار بنا رہا ہے کوئی جنرل مشرف کا جانشین بتلا رہا ہے تو کوئی جمہوریت کا دشمن گردان رہا ہے ۔ اور ان تمام ایشوز پر ہمارا الیکٹرانک میڈیا جس طرح پھاپا کُٹنی کا کردار ادا کرتا نظر آرہا ہے وہ واقعی دیکھنے لائق ہے۔ غیر جانبدار میڈیا میں جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک سینئر تجزیہ نگار نے تو متحدہ قومی موومنٹ کے لانگ مارچ میں شرکت کے اعلان پر زرداری صاحب کو یہ مشورہ دے ڈالا کے سندھ میں بلدیاتی نظام ہی ختم کردیں اور سندھی قوم پرستوں کو اپنا رفیق بنا لیں۔
یہ کس طرح کی فضاء قائم کی جارہی ہے ۔عوامی مفاد کو نظر انداز کرکے جمہوریت سے زیادہ جمہوریت دانوں کی فکر میں مبتلا یہ میڈیا جانے کس آئین کے تحت سولہ سولہ وزارتِ رکھنے والے فردِ واحد کو جمہوریت کا پیکر بتاتے نہیں تھک رہا۔ اور اُنہی جمہوری آمروں کی طوطی بولتا نظر آتاہے جواپنی آمرانہ سوچ کو اب اپنی الادوں میں منتقل کرکے ایک نئے دورِ غلامی کا آغاز کر نا چاہتے ہیں۔میڈیا کو اپنے کردار کا جائزہ لینا ہو گا ورنہ اس ملک کی عوام سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کا بھی احتساب شروع کردے گی پاکستانی میڈیا یہ بات خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ عوام کیا چاہتے ہیں ۔ یہ کیا مانگ رہے ہیں ۔ ایسی نام نہاد جمہوریت کاراگ الاپنے سے کیا فائدہ جس کے لیے سیاستدانوں کو عوام کے ووٹوں کے بجائے سیاسی لوٹوں کی ضرورت پڑتی ہو۔ میڈیا کی طرح پاکستان کا ہر باشعور شہری جمہوریت کا حامی ہے لیکن حقیقی معنوں میں جمہوریت کا قیام ضروری ہے، آئین کی بالادستی کس کو منظور نہیں ، آئینِ پاکستان مکمل طور پر نافظ نہ ہونے کے باعث آج ہم پریشانیوں کا شکار ہیں۔ حقیقی جمہوریت قائم کرنے کے لیے ہر ایک کو اپنا کردار غیر جانبدار طریقے سے نبھانے کی ضرورت ہے۔ میڈیا بھی ایسے لوگوں کا ساتھ دے جو اس موجودہ ناکام نظامِ حکومت سے تنگ آچکے ہیںاور ملک میں حقیقی تبدیلی کے خواں ہیں ،سب ایک ہوکر ریاست میں ظلم وجبر کے نظام کا خاتمہ کر کے آئین کی بالادستی ممکن بنائیں۔ ملکی سالمیت اور حقیقی جمہوریت کا قیام اب صرف و صرف اسی بات میں پوشیدہ ہے کہ ملک کومکمل طور پر آئین کے تحت چلایا جائے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کا قول ہے اس بات پر غور کیا جائے کہ کوئی کیا کہہ رہا ہے بجائے اس کے کہ کون کہہ رہا ہے۔
Dr Tahir Ul Qadri
تحریکِ منہاج القرآن کے سربراہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے جس مثبت سوچ کو جنم دیتے ہوئے کرپٹ نظام کے خلاف طبلہء جنگ بجایا ہے اور ملک سے استحصالی نظام کے خاتمے کا عَلم اٹھایا ہے ایم کیو ایم اس کی مکمل حمایت اور سپورٹ کرتی نظر آتی ہے جس کے بعد یہ لانگ مارچ مزید اہمیت کا حامل ہو گیا ہے اور 14 جنوری کے لانگ مارچ کو ایک نئی طاقت میسر آگئی ہے اور ممکن ہے کہ مسلم لیگ ق بھی اس مارچ میں شامل ہوجائے اس کے علاوہ ڈاکٹر طاہر القادری نے عوامی سطح پر دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی رابطے شروع کر دئے ہیں۔ اگر ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اس لانگ مارچ کی حمایت کا اعلان کر دیا تو سوچیں یہ عوام کا سمندر کیا رنگ لائے گا ۔لہذا اس سے پہلے یہ سمندر ایک طوفان کی شکل اختیار کرکے کُوکی فضاء بنائے حکمران نیک نیتی کے ساتھ عوامی امنگوں کے مطابق آئین کے تحت انتخابی اصتلاحات کے ساتھ ایک غیرجانبدار نگراں سیٹ اپ کا اعلان کریں۔ جس پر پاکستان کے عوام ،پاکستان کا میڈیا ، پاکستان کے عوامی مقتدر حلقے ریاستی ادارے سب متفق ہوں۔ لیکن کُو سے پہلے۔۔۔!
تحریر : عمران احمد راجپوت
Imran Ahmed Rajput
by Geo Urdu
Geo Urdu (Webmaster)