وطنِ عزیز میں ہم لوگ اتحاد ، اتفاق ، ہم آہنگی ، بھائی چارہ اور یگانگت کو ڈھونڈنے میں سرگرداں ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ناپید ہو کر رہ گیا ہے جبکہ ان تمام چیزوں سے ہم وطنوں کی اکثریت وابستہ ہونا چاہتی ہے۔ دھرتی کو ماں کا درجہ دینا بھی وطن سے پیار و محبت کا ایک ذریعہ ہوتا ہے جس سے ہمارے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے۔ اضافۂ آبادی اور مہنگائی کے نہ تھمنے والے سیلِ رواں کے باوجود وطنِ عزیز کا ہر باسی اس امید پر زندہ اور مسکراتا ہوا نظر آتا ہے کہ کبھی نہ کبھی ہمارے ملک کا حال بدلے گا، کبھی نہ کبھی ہم سب بھی خوشیوں سے لبریز دن دیکھیں گے، حقوق کی بازیابی کے ضمن میں انتظامیہ اور حکومت کے رویہ میں کبھی نہ کبھی تو تبدیلی آئے گی ، کبھی تو ہم بھی ہر چیز میں خود کفیل ہونگے، ملک کے آئین میں ملک کے ہر شہری کو جس طرح اس کے بنیادی حقوق سے استفادہ کی طمانیت دی گئی ہے اس پر کبھی تو عمل در آمد کا سلسلہ شروع ہو گا، سماجی، تعلیمی اور معاشی نظام کبھی تو اپنے پیروں پر کھڑا ہو گا جس سے ہماری آنے والی نسلیں مستفید ہو سکیں گی، یہ تو ہیں وہ بنیادی نکات جس کی تمنا ملک کا ہر شہری اپنے دل میں زندہ رکھے ہوئے ہے۔
انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے کہا ہے کہ پاکستان میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور چند طبقے تو وہاں حصار کی سی صورتحال میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پاکستان ہیومن رائٹس واچ کے علی ادیان حسن نے کہا ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں پاکستانیوں کے لئے سب سے زیادہ خونریز سال ثابت ہوا۔دھماکوں کی تازہ لہر سے جمعرات کو پاکستان کے مغربی شہر کوئٹہ میں ہونے والی تباہی میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد لگ بھگ ایک سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ وطنِ عزیز کے باسیوں پر کئی سالوں سے ایسے گھنائونے عمل کا کھیل جاری ہے ، وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ کبھی تو یہ سلسلہ بھی تھمے کا اور ملک کا ہر فرد آزادی سے نقل و حرکت کر سکے گا۔
جہاں خطرے کی سنسناہٹ نہیں ہوگی، سیکوریٹی ادارے مسلسل سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں ، ایسے میں ملک کی چند انسانی حقوق کی تنظیموں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ حکومت اس بات کی تحقیقات کروائے کہ آیا چند کالعدم گروہوں کے تعلقات سکیورٹی والوں کے ساتھ تو نہیں ہیں ، بظاہر تو ایسا نہیں لگتا کیونکہ جو ہمارے رکھوالے ہوں وہ ایسا نہیں کر سکتے، مگر کچھ بعید بھی نہیں کیونکہ آستین کا سانپ ہر دور میں رہا ہے اس لئے تحقیقات کا دائرۂ کار وسیع کرکے اس بات کی مکمل چھان بین بہت ضروری ہے۔ یہ آزادی ہے کیسی جس نے تنہا کر دیا ہم کو جو سب کو باندھ کر رکھتی تھی وہ زنجیر اچھی تھی بدعنوانی اور کرپشن کا ایسا دور دورہ ملک کے طول و عرض میں ایسا پھیلا ہوا ہے جس سے ہر فرد متاثر ہو رہا ہے، نوکریاں ناپید ہو چکی ہیں، بیروزگاری کی لاسٹ اسٹیج چل رہی ہے، گرانی اپنے آخری حدوں کو چُھو رہی ہے ایسے میں انتخابات سَر پر آ چکے ہیں، اب رہی عوام کی بات تو وہ الیکشن میں کیا رُخ اور نظریے کے ساتھ ووٹ دیتے ہیں اس کے لئے ابھی وقت ہے اور ویسے بھی جمہوریت میں عوام کا فیصلہ ہی حتمی ہوتا ہے۔ باقی ساری چیزیں تو ثانوی ثابت ہوتی ہیں۔
Sheikh Rashid
یہ الگ بات ہے کہ ہمارے یہاں سیاسی اکھاڑے کے لوگ اپنی خوبیوں کے بجائے دوسروں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے میں ماہر نظر آتے ہیں۔ ایسے ماحول میں بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے کسی بھی پارٹی کو عوام سادہ اکثریت سے نوازنے والے نہیں ، اور ایسے میں شیخ رشید کا ٹی وی ٹاک شو میں تجزیہ غالباً ٹھیک ہی لگتا ہے کہ شاید اسمبلی ہینگ ہی وجود میں آئے۔ یوں ایک بار پھر سے جو بھی زیادہ سیٹیں حاصل کرے گا اسے مفاہمت کی پالیسی کو ہی اپنانی ہوگی( اور انہیں ایک دوسروں کے سیاسی دروازے کھٹکھٹانا پڑے گا اس لئے لفظوں کے نشتر بھی ایک دوسرے پر سوچ سمجھ کر چلایا جائے تاکہ الیکشن کے بعد اگر سہارے کی ضرورت محسوس ہو تو ملنے میں کسی کو شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔) مطلب پھر سے پانچ سال عوام کے دکھوں اور بے چینیوں کے سائے تلے ہی گزرنے کی قیاس آرائی ہے۔ خدا خیر کرے ہم سب پر بھی اور ہمارے وطن پر بھی کہ جس کہ سائے میں رہتے ہوئے ہمیں طمانیت محسوس ہوتا ہے ۔ اور خدائے بزرگ و برتر ہمیں پھر سے قائد اعظم کا پاکستان عطا کر دے تاکہ اتحاد و بھائی چارگی میں پیار و محبت کے ساتھ اس ملک کے لوگ زندگی خوشیوں کے ساتھ گزارنے کے قابل ہو سکیں۔
سب ہی جانتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا جبھی تو ہمارے وطن کا پورا نام” اسلامی جمہوریہ پاکستان” رکھا گیا ہے۔ اور اسلام کو مٹانے کی یہود و نصاریٰ کی کوششیں اور سازشیں تین ہزار سالہ قدیم ہیں جو آج بھی اپنی تمام فتنہ سامانیوں سے جاری ہے۔ یہود و نصاریٰ اسلام کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں اسے مٹانے کے دَر پر رہتے ہیں مگر ایسے عناصر شاید یہ بھول گئے کہ ہمارا دین اسلام تا قیامت سلامت رہنے والا دین ہے۔ اور ہمارے ملک کا بچہ بچہ اس پر کامل یقین رکھتا ہے۔ ہاں! یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے لئے اور ملک میں افرا تفری پیدا کرنے کے لئے چند عناصر یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ ہو سکتے ہیں۔ لیکن وہ جتنا چاہے زور لگا لیں افرا تفری تو پھیلا سکتے ہیں مگر ہمارے باسیوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ احساسِ کمتری میں مبتلا تو کر سکتے ہیں مگر شکست سے دو چار کرنا مشکل ہے۔ لاکھ جتن کر ڈالے، کتنی ہی سازشیں، اسلام کو مٹانے کے لیے اور سب کچھ کر ڈالا جو ان سے بن پڑا اس کے باوجود اسلام روز افزوں پھیل رہا ہے ۔ یہ بات حقیقی اور اٹل ہے کہ پوری دنیا اسلام کو مٹانے کے لئے متحد ہو جائے تب بھی وہ اسلام کو ذرّہ برابر بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ بس ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اب ان منتشر، غیر منظم اور محروم طبقات کو ایک دوسرے کے رابطے میں لاکر ملک کے اس بے ہودہ نظام کو بدلنے کی سعی اور جستجو کی جائے۔
Islamabad Sealed
ہمارے ملک کی راجدھانی (دارالخلافہ) آج کل لانگ مارچ کے لپیٹ میں ہے ، بہت ہی قلیل وقت لانگ مارچ کے شروع ہونے میں رہ گیا ہے اور تمام اعلیٰ شخصیات اسلام آباد سے غائب ہیں، پیٹرول پمس، سی این جی اسٹیشنز، مارکیٹ ، بلکہ پورے کا پورا اسلام آباد سیل کر دیا گیا ہے ، حتی الامکان کوشش ہے کہ موبائل سروس کی لوڈ شیڈنگ بھی لاہور اور اسلام آباد میں شروع ہو جائے، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خوبصورت دارالخلافہ ہر سہولتوں سے ناپید ہونے جا رہا ہے اور وہاں کے باسیوں کو سخت اذیت کا سامنا ہو گا ایسے میں لانگ مارچ والے بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، کیا واقعی اسلام آباد التحریر اسکوائر بننے جا رہا ہے، اور اگر التحریر اسکوائر بن گیا تو کیا عوام کو وہ تمام سہولتیں میسر آجائیں گی جس کے لئے لانگ مارچ کیا جا رہا ہے۔ اس کے لئے ہم سب کو وقت کا انتظار کرنا ہوگا۔ ویسے بھی آج تک تو ہمارے یہاں کچھ بھی نہیں بدلا ، دیکھیں آنے والے دنوں میں کیسا رنگ نکل کر سامنے آتا ہے۔اس ملک کا غریب اور متوسط طبقہ بہت پِس چکا ہے اس میں یہ بھی سکت باقی نہیں رہی کہ وہ کسی کاز کیلئے گھر سے باہر نکل سکے کیونکہ اس کی جیبیں خالی ہیں۔
ایسے میں حکومت کو چاہیئے کہ اپنے عوام کو وہ سب کچھ دے جس سے عوام کا معیارِ زندگی بہتر ہو سکے، اور دینے کا اس لئے نہیں کہا جا رہا ہے کہ وہ بھیک میں انہیں دیں بلکہ یہ پِسے ہوئے عوام کا حق بھی ہے ، کچھ اسکیمیں متعارف کرائے جائیں جن میں زمین خریدنے کے لئے بلا سود رقم فراہم کیا جائے، مکان بنوانے کے لئے رقم فراہم کیا جائے، تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے، زندگی کی بنیادی ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا جائے، گیس کم از کم گھروں کے چولہوں میں مستقل فراہم کیا جائے، دہشت گردی سے نجات دلانے کے لئے جامع اور ٹھوس حکمتِ عملی وضع کئے جائیں، ٹارگٹ کلنگ سے مستقل نجات دلائی جائے، نوجوان ڈگری یافتہ افراد کو نوکریاں فراہم کی جائیں (اداروں کو پابند کیا جائے کہ ان سے تجربہ نہ مانگا جائے کیونکہ کوئی بھی نوجوان جب نوکری کیلئے جاتا ہے تو اسے زیادہ تر اداروں کی جانب سے ایسے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ آپ کے پاس تجربہ نہیں ہے، بیچارے نے ڈگری تو محنت سے حاصل کر لی مگر تجربہ کوئی ماں کے پیٹ سے لیکر تو پیدا نہیں ہوتا۔
Zardari Pervez Ashraf
نوکری ملے گی تو تجربہ بھی ہو جائے گا) جو بے یارو مددگار در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ فرقہ پرستی جو بہت راز داری سے فروغ پا رہا ہے جس سے وقتاً فوقتاً فساد بھی ہو رہا ہے اس سے نجات کا صحیح راستہ چُنا جائے، اس جیسے اور لاتعداد سہولتوں کی فراہمی ہے جس سے آج ہماری قوم نبرد آزما ہے اور اللہ کے بعد وہ حکمرانوں کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں۔ یہ تمام سہولتیں فراہم کی جائیں تا کہ ہماری عوام اس جملے کی باز گشت سے اپنے آپ کودور رکھنے پر مجبور ہوجائیں اور وہ جملہ ہے ” کچھ بھی تو نہیں بدلا ” ابھی وقت کی ڈور آپ ہی کے ہاتھ میں ہے ، آپ چاہیں تو یہ سب کچھ پلک جھپکتے میں کر سکتے ہیں جس سے آپ کے عوام خوشیوں ، شادمانیوں کی طرف لوٹ جائیں گے اور ہم سب کا ملک ترقی و کامرانی کی طرف گامزن ہو سکتا ہے۔
وہ ممالک جو ہمارے بعد وجود میں آئے وہ تو ترقی کی راہ میں کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہیں مگر ہم پیچھے رہ گئے، آخر کیوں ، یہ بھی سوچنے کا مقام ہے اور یہ سب سوچنے کی ذمہ داری بھی آپ ہی پر عائد ہوتی ہے کیونکہ عوام نے آپ کو منتخب کرکے اُس مقام پر بٹھادیا ہے جہاں بیٹھ کر یہ سب کام انجام دیئے جا سکتے ہیں۔ خدارا اب انتظار مت کیجئے اور کر ڈالیئے وہ سب کچھ جس کا عوام آپ سے امید لگائے ہوئے ہیں۔