کچھ کہہ بھی نہیں سکتے ؟

pakistan

pakistan

کہنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان میں بے یقینی کی کیفیت ختم ہونے میں نہیں آ رہی اور اس سب کئے دھرے کی ذمہ داری ہماری اپنی ہے میں بھی ان کہنے والوں میں شامل ہوں کہ یہ سب ہمارا اپنا کیا دھرا ہے جس کو پوری قوم بھگت رہی ہے،ہمارے یہاں بحران ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہے،کچھ بحران ایسے ہوتے ہیں جن کی سمجھ نہیں آتی مگر وہ ہمارے اپنے پیدا کردہ ہی ہوتے ہیں ،کچھ بحران قدرت کی طرف سے پیدا ہو جاتے ہیں جو ہمارے اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں جنہیں دعائوں سے نہیں اچھے کردار و عمل سے ٹالا جا سکتا ہے۔پاکستان اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایسی مملکت ہے جس کی بنیادوں میں لاکھوں شہدا کا خون شامل ہے اور لاکھوں عصمتیں بھی قربان ہوئیں،قربانیوں کا یہ سلسلہ آج بھی اسی طرح جاری ہے مگر ان قربانیوں کا صلہ ہمیں اس لئے نہیں مل رہا کہ ہمارے اعمال درست نہیں ہیں ،قربانیوں کا سلہ پاکستانی قوم کو پیٹرول ڈیزل اور اشیائے ضروریہ کی مہنگے داموں دستیابی کی صورت میں مل رہا ہے۔من حیث القوم ہم نے پاکستان کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں ہے اور نہ ان ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کی مدد سے ہم اس مملکت کو تمام بحرانوں سے بچا سکتے ہیں،کبھی کوئی بحران اور کبھی کوئی بحران،اب تو خیر سے دالوں کا بحران بھی آ گیا ہے جس کی وجہ سے عوام بددعائیں دینے پر مجبورہو گئے ہیں۔قیام پاکستان کے بعد ہماری حکومتوں سے پہلی سنگین غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے پاکستان کو امریکہ کی جھولی میں گرا دیا۔

 

بلا سوچے سمجھے،یہ بھی نہ سوچاکہ آنے والے وقت میں اس دوست نما دشمن کی یاری کیا کیا گل کھلائے گی اور ہمیں مشکلات کے اس بھنور میں پھنسا دے گی۔پاکستان کوامریکہ سے دوستی بہت مہنگی پڑ رہی ہے اور اس دوستی میں پاکستان گردن تک دھنسا ہوا ہے ہزار کوشش کے باوجود یہ کمبل اتر نہیں رہا اور اب تو امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں اتنی دخل اندازی کر رہا ہے جتنی ہم خود نہیں کر رہے،پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو ہی لیجیے جس پر ہمارے دوست کو تحفطات لاحق ہیں اور وہ اس پر مسلسل لاف زنی کر رہا ہے ۔اس میں شک نہیں کہ حکومت پاکستان اس حوالے سے جو موقف اختیار کر رہی ہے اسے قومی موقف قرار دیا جا سکتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ یہ ہماری بقا کا معاملہ ہے جس پر امریکہ کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں اور وہ اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی ہر کوشش کر سکتا ہے۔ہماری حکومت نے اس حوالے سے اپنا موقف پیش کیا ہے اور وہ گاہے بگاہے میڈیا پر اس کا ذکر بھی کر رہی ہے مگر ضروری ہے کہ اس حوالے سے امریکہ کوصاف صاف بتا دیا جائے کہ وہ اس معاملے پر خود کو تکلیف نہ دے اور نہ پاکستان کو زچ کرے۔پاکستان کو اپنی بقا اور سلامتی کے لئے بلا جھجک کے کچھ ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں جن کی ضرورت عرصہ سے محسوس کی جا رہی ہے مگر کچھ خود ساختہ مصلحتوں کے بوجھ نے حکمرانوں کو معذرت خواہانہ روئیہ ترک سے باز رکھا ہے جو ہماری ناکامیوں کی اصل وجہ ہے۔
وطن عزیز کو مشکلات کے بھنور سے نکالنے کے لئے حکمرانوں کو جرات مندانہ روئیہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے،تاویلیں ،وضاحتیں اور مصالحتیں ہمیں نقصان پہنچا رہی ہیں اب ہمیں اس روئیہ کو اختیار کرنے کی ضرور ت ہے جس کی مدد سے قومی خود مختاری،سلامتی اور غیرت پر کوئی حرف نہ آئے۔امریکہ نے افغانستان میں ہزیمیت ااٹھانے کے بعد اپنی توجہ کا محور و مقصد پاکستان کو بنا لیا ہے جہاں وہ اپنا مذموم کھیل کھیل کر افغانستان اور عراق میں اٹھائی جانے والی ہزیمیت کا بدلہ لے سکے اور خود کو فاتح قرار دے سکے،ہمیں امریکہ کی اس چالبازی کو سمجھنے کی ضرورت ہے تا کہ ایسی حکمت عملی اختیار کی جا سکے جس کی مدد سے ہم اپنے قومی وقار کو امریکی گرفت سے نکالنے کی کوئی سبیل کر سکیں،اس وقت عمل کی ضرورت آ ن پڑی ہے او روقت ضائع کئے بغیر اس بارے سوچنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔سینٹ میں پیپلز پارٹی کو اکثریت مل گئی ہے اور اب وہ اس پوزیشن میں آ گئی ہے جب وہ ملکی فلاح کے فیصلے کسی کی مدد کے بغیر کر سکتی ہے،پیپلز پارٹی سینٹ میں حاصل ہونے والی قوت کو خالصتاً عوامی اور ملکی مفاد میں استعمال کرے اور اس داغ کو دھونے کی عملی کوشش کرے جوعوامی خدمت نہ کرنے کے حوالے سے اس کے ماتھے پر لگا ہوا ہے،جانے سے پہلے کوئی ایک اچھا کام کر لیا جائے تو یہ اس کی ایک اور کامیابی ہو گی مگر ہمارے یہاں تو حکومت کا آخری پارلیمانی سال شروع ہونے سے کچھ ہی دیر پہلے دلوں کی قیمتیں آسمان پر جا پہنچی ہیں اور اب دالیں کھانا امیروں کے بس میں بھی نہیں ہے دال چنا ایکسو چالیس روپے کلو کے حساب سے فروخت ہو رہی ہے اور دال لوبیا ایک سو بیس روپے میں فروخت ہو رہی ہے،آلو، ٹماٹر،گوبھی اور گھی کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں اور پیپلز پارٹی سینٹ میں حاصل ہونے والی اکثریت پر بغلیں بجا رہی ہے۔

 
عوام باقائدگی سے حکومت کو بددعائیں دینے لگے ہیں اور ڈر ہے کہ اگر جلد عوامی ریلیف بارے نہ سوچا گیا تو حکومت سے چھٹکارے کے لئے استسقا بھی ادا کی جائے گی،غائبانہ نماز جنازہ تو پچھلے چار سالوں میں کئی مقامات پر کئی بار ادا کی جا چکی ہے اب دیکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنی نئی فتح کاجشن کیسے مناتی ہے اور عوام اس جشن سے کیا فائدہ حاصل کرتے ہیں۔محمد بشیر بیگ