میر تقی میر کے سامنے دِلّی بار بار اُجڑی۔ اُن کی پوری زندگی کبھی غنیم کا پیچھا کرنے اور کبھی شکست کھا کر بھاگنے میں صرف ہو گئی۔ سبھی ساتھی دِلّی سے لکھنو ہجرت کر گئے لیکن میر کا دل دِلّی میں کچھ ایسا اٹکا کہ دِلّی چھوڑنے کے خیال سے ہی ہَول اٹھنے لگتے۔ پھر چشمِ فلک نے یہ عجب نظارہ بھی دیکھا کہ امتدادِ زمانہ نے مجنونِ دِلّی کو بھی ہجرت پر مجبور کر دیا میر عازمِ سفر ہوئے اور راہ کی صعوبتیں برداشت کرتے جب لکھنو پہنچے تو حالت یہ تھی کہ سر میں دھول ، دریدہ پیرہن ، ننگے پاؤں اور بڑھی ہوئی داڑھی۔
ظاہری حلیے سے یوں لگتا تھا کہ جیسے کوئی دیوانہ ، کوئی سودائی جا رہا ہو ۔میر اسی حالت میں شاعری کی ایک محفل میں جا پہنچے جہاں زرق برق لباس میں ملبوس شعراء اپنا کلام سُنا رہے تھے۔ شمعِ محفل جب گھومتے گھومتے میر صاحب کے قریب پہنچی تو کسی ستم ظریف نے از راہِ تفنن شمع میر صاحب کے سامنے رکھ کر کہا ”حضرت ! ارشاد”۔جس پر محفل کشتِ زعفران بن گئی تب میر تقی میر نے فی البدیہہ وہ اشعار کہے جو اُردو شاعری میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے ۔اُنہوں نے فرمایا کیا بودو باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو ہم کوغریب جان کے ہس ہس پُکار کے دِلّی کہ جو اِک شہر تھا عالم میں انتخاب رہتے وہاں تھے منتخب ہی روز گار کے اُس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا ہم رہنے والے ہیں اُسی اُجڑے دیار کے تب لوگوں کو پتہ چلا کہ یہ تو اُستاد الاساتذہ میر تقی میر ہیں۔کاش کہ میرے وطن کے باسیوں کو بھی اِس سوہنی دھرتی سے اتنا ہی عشق ہوتا جتنا میر کو دِلّی سے تھا۔
کراچی میں ایم کیو ایم کے زیرِ اہتمام ”سفرِانقلابِ پاکستان” کا جلسہ جاری ہے ۔عوام کا تا حدّ ِ نظر ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجود ، شیخ الاسلام خطاب فرما چکے ، قائدِ تحریک الطاف حسین کا خطاب جاری ہے لیکن میں اُسے سننے کی بجائے کالم لکھنے میں مصروف ہوں کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ قائدِ تحریک حسبِ سابق ”اوئے جاگیر دارا” ٹائپ خطاب ہی فرما رہے ہونگے ۔ایم کیو ایم کی بہرحال یہ صفت تو ماننی ہی پڑے گی کہ وہ آناََ فاناََ لاکھوں کا مجمع اکٹھا کر لیتی ہے ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سب کچھ ”ڈنڈے کے زور پر ” کیا جاتا ہے ۔ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو لیکن مجمع تو مجمع ہی ہوتا ہے خواہ اصلی ہو یا جعلی ۔لیکن میری کالم لکھنے کی تحریک کا سبب جلسہ ہے نہ خطاب بلکہ اُس دُکھ کا اظہار کرنا ہے جو شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر حضرت مولانا ، علّامہ طاہر القادری نے اُردو ادب کی اِس طالبہ کو پہنچایا۔مولانا دینِ مبیں کے بارے میں جو کچھ بھی فرماتے رہے ہیں وہ قبول کہ ہم جیسوں کا علم بہر حال اُن کے مقابلے میں ناقص ہے لیکن اگر وہ میر و غالب کی روحوں پر احسانِ عظیم فرماتے ہوئے آئیندہ کے لیے اپنے خطبات میں اِن کے اشعار کا کچرا کرنے سے توبہ فرما لیں تو مہربانی ہو گی۔
اُنہوں نے اپنے خطبے میں میر تقی میر کے بالا اشعار کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے محض غلط سلط تین مصرعے ارشاد فرمائے اور بھرّائی ہوئی آواز میں اُن مصرعوں کو غالب سے منسوب کر دیا ۔مجھے تو خوف دامن گیر ہوا کہ کہیں مولانا صاحب چھ سات سو صفحات کا فتویٰ ہی جاری نہ فرما دیں کہ یہ اشعارمیر کے نہیں غالب ہی کے ہیں کیونکہ اِس معاملے میں وہ مہارتِ تامہ رکھتے ہیں۔ اگر ہزار پانچ سو کتابیں وہ لوگوں سے لکھوا کر اپنے نام سے چھپوا سکتے ہیں تو میر کو غالب اور غالب کو میر قرار دینا تو اُن کے لیے کونسا مشکل کام ہے۔ لیکن شکر ہے کہ حضرت علّامہ کو اللہ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور قُرآن کی قسمیں اُٹھانے سے ہی فُرصت نہیں اِس لیے میر و غالب بال بال بچ گئے۔
Imran Khan
میرا ”سونامی” کے علمبردار انتہائی محترم عمران خاں صاحب کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ بھی قسمیں اُٹھانے کی خوب خوب پریکٹس کر لیں کیونکہ انقلاب کے داعی وہ بھی ہیں اور اُمیدِ واثق ہے کہ آئیندہ جلسے جلوسوں میں قسمیں اُٹھانے کا مقابلہ ہی ہوا کرے گا۔ قائدِ تحریک تو ایک وڈیو خطاب میں قُرآنِ مجید لہرا لہرا کر پہلے ہی خوب پریکٹس کر چکے ہیں البتہ میاں برادران کے لیے ذرا مشکل ہو گی کیونکہ وہ قسمیں کھانے کے عادی ہیں نہ اُنہیں اِس کی پریکٹس۔ رہی پیپلز پارٹی کی بات تو اُنہیں قسمیں اٹھانے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں کیونکہ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں کھُلم کھُلا اور سینہ تان کے کرتے ہیں۔
مولاناطاہر القادری اور محترم الطاف حسین نے 14 جنوری کو اسلام آباد کو التحریر اسکوائر میں بدلنے کا اعلان فرما دیا ہے ۔مولانا نے فرمایا کہ اُن کے چالیس لاکھ پیروکار لانگ مارچ میں شرکت کریں گے ۔ میری حضرت مولانا سے استدعا ہے کہ وہ ”چالیس” میں کمی بیشی کر لیںکیونکہ میاں شہباز شریف کو اِس ہندسے سے چِڑ ہے ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اِنہیں بھی چالیس چور قرار دے دیں۔ دوسری طرف اگر ایم کیو ایم کے پچیس تیس لاکھ افراد لانگ مارچ میں شرکت کرنے سے قاصر رہتے ہیں تو اُس کی قومی اسمبلی کی پچیس سیٹوں کا کیا فائدہ ۔ویسے بھی یہ اُن کے لیے باعثِ شرم ہو گا کہ وہ اتنی قلیل تعداد بھی اکٹھی نہ کر سکے۔ اُدھر چوہدری برادران نے بھی مولانا کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کر دیا ہے۔ وہ بھی پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اور کرتا دھرتا ہیں اس لیے بیس پچیس لاکھ تو اُن کی ذمہ داری بھی ٹھہری ۔گویا محتاط ترین اندازے کے مطابق لگ بھگ ایک کروڑ سے زائد افراد کی شرکت متوقع ہے اس لیے اب اسلام آباد التحریر اسکوائر بنے ہی بنے۔
نہ جانے کیوں میرا بار بار یہ لکھنے کو جی چاہ رہا ہے کہ ”شرم تم کو مگر نہیں آتی” ۔شیخ الاسلام تو مانا کہ اپنی تشنہ آرزوؤں کی تکمیل کی خاطر کسی ملکی یا غیر ملکی ایجنڈے کے تحت پاکستان تشریف لے آئے لیکن یہ ایم کیو ایم اور قاف لیگ کو کیا ہو گیا ہے ؟۔وہ تو حکومت کے مزے لوٹتی رہیں اور تا حال لوٹ رہی ہیں پھر اِن کا مولانا قادری کے سامنے زانوے تلمذ تہ کرنا چہ معنی دارد۔مولانا جو حکومت کے خلاف زہر اُگل رہے ہیں کیا حکومت کے ساجھی دار اُس جرم میں برابر کے شریک نہیں ؟۔ مولانا قادری کے پہلو میں بیٹھے محترم فاروق ستار کم از کم یہ شعر پڑھ کر ہی ہم جیسوں کو خوش کر دیتے کہ کتنے شیریں ہیں تیرے لَب کہ رقیب گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہوا
Yousaf Raza Gillani
سابقہ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے آج جل بھُن کر یہ کہا کہ طاہر القادری تو حکومت کے خلاف لانگ مارچ کر رہے ہیں لیکن اپنے ڈپٹی وزیرِ اعظم صاحب کس کے خلاف لانگ مارچ کریں گے؟۔اُدھر جنابِ صدر نے بھی ہنگامی طور پر وزیرِ اعظم اور دیگر اکابرینِ پیپلز پارٹی کو کراچی طلب کر لیا ہے جہاں بہت سے دھماکا خیز فیصلے ہونے کی توقع ہے۔ پہلا دھماکا تو غالباََ ہو بھی چُکا کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں ایم کیو ایم کے دباؤ پر جاری کردہ لوکل گورنمنٹ آرڈی نینس پر نظرِ ثانی کا فیصلہ کر لیا ہے اور آغا سراج درانی نے اِس کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ اِس آرڈی نینس کا خاتمہ ایم کیو ایم کے نزدیک اُس کی سیاسی موت کے مترادف ہے۔
اِس لیے اُمید یہی ہے کہ ایم کیو ایم اِس دھمکی کو برداشت نہیں کر پائے گی۔اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم اپنا فائدہ دیکھتے ہوئے اُلٹے پاؤں پھرنے میں دیر نہیں لگاتی۔ اُدھر چوہدریوں کوبھی اقتدار کی بُری لَت نے بد مست کر رکھا ہے اگر پیپلز پارٹی نے اُنہیں بھی کوئی دھمکی لگا دی تو وہ بھی باقی بچ جانے والے دو اڑھائی ماہ کے اقتدار سے دور ہونا پسند نہیں کریں گے کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ وہ چراغِ رُخِ زیبا لے کر گلی گلی بھی پھرتے رہیں تو پھر بھی اب کبھی اقتدار کی دُلہن اُن کے نصیب میں نہیں آنے والی۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر مولانا قادری کو جو مایوسی ہو گی سو ہو گی لیکن ہماری اپنی حالت یہ ہو گی کہ دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشہ نہ ہوا۔ تحریر : پروفیسر رفعت مظہر prof_riffat_mazhar@hotmail.com