پوری دنیا میں تیل کی طلب و رسد میں تضادات نے عجیب بحران پیدا کر دیا ہے۔ تیل پر قبضے کی خواہش ہی ملکوں کو جنگوں میں جھونک رہی ہے۔
petrol in car
دنیا کے دیگر غریب ملکوں کیطرح پاکستان میں آئے روز پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے جس سے موٹر سائیکل سواروں اور چھوٹی گاڑیاں رکھنے والوں کو شدید مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور تو اور پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی بیحد بڑھا دیے جاتے ہیں۔
پٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث ہر کوئی یہی سوچتا ہے کہ اسکا متبادل بھی ہونا چاہیے جیسے بیٹری یا پانی سے چلنے والی گاڑیاں۔ دنیا کے اکثر ممالک میں پٹرول اور پانی کو ملا کر گاڑیاں چلائی جا رہی ہیں۔
اب پاکستان کے ایک ماہر انجینئر آغا وقار نے مکمل طور پر پانی سے گاڑی چلا کر سب کو حیران کر دیا ہے۔ انجینئر آغا وقار نے اپنے دو ساتھیوں سید معین رضا اور سید عاصم کی مدد سے واٹر کٹ تیار کی ہے۔
اس واٹر کٹ سے 800 سی سی سے لیکر 1700 سی سی تک کار حتیٰ کہ ٹریکٹر بھی چلایا جا سکتا ہے۔ اس واٹر کٹ میں ڈیڑھ سے دو لیٹر پانی ڈلتا ہے جس کے بعد گاڑی کی بیٹری سے واٹر کٹ میں موجود الیکٹروڈز کو کرنٹ دیا جاتا ہے۔
اس کرنٹ کے نتیجے میں پانی سے ہائیڈروجن گیس بنتی ہے جو انجن میں داخل ہو کر چلتی ہے جس سے گاڑی چلنے لگتی ہے۔
Engineer Agha Waqar Ahmed
گزشتہ دنوں وفاق کابینہ کی خصوصی کمیٹی کے فیصلے کے تحت انجینئر آغا وقار احمد نے اپنے دونوں ساتھیوں کے ہمراہ وفاقی دارالحکومت کے سپورٹس کمپلیکس میں پانی سے گاڑی چلانے کا کامیاب تجربہ کیا۔
پانی سے گاڑی چلانے کا عملی مظاہرہ دیکھنے والوں میں وفاقی وزرا سمیت وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، پاکستان سائنس فاؤنڈیشن، آٹو میٹک انرجی، پاکستان انجینئرنگ کونسل اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سمیت مختلف اداروں کے ماہر سائنسدان بھی شامل تھے۔
اس کٹ سے گاڑی پٹرول سے دوگنا فاصلہ طے کریگی۔ پانی سے چلنے والی کار کا مظاہرہ دیکھنے کیلئے آئے ہوئے انجینئرز میں سے انجینئرز نصیر قریشی کا کہنا ہے کہ وہ اس تجربے سے بالکل متفق ہیں البتہ اس میں بہتری کی مزید گنجائش ہے۔
پانی کے ذریعے گاڑی چلانے کا منصوبہ اچھوتا اور نیا نہیں ہے بلکہ اسکی تاریخ کافی پرانی ہے۔ جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کیبعد 1945ء میں سابقہ ریاست حیدر آباد دکن میں بھی پانی کیساتھ کار چلانے کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔
جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کیبعد پٹرول کی شدید قلت پیدا ہو گئی تھی۔ اسی دوران سکالر مولوی چراغ علی کے فرزند اور وائرلیس اینڈ براڈ کاسٹنگ کے سابقہ ڈائریکٹر محبوب علی نے پانی اور بھاپ سے چلنے والی کار تیار کر ڈالی۔
اس گاڑی کو پیار سے ” گیس پلانٹ ” پکارا جاتا تھا۔ محبوب علی کی کامیابی کو اسوقت حیدر آباد کے حکمران نظام نے بھی سراہا، جس کیبعد یہ گیس پلانٹ شاہی خاندان کی کاروں میں بھی نصب کیے گئے۔
اسکے علاوہ حیدر آباد کی سڑکوں پر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ میں سرکاری طور پر یہ پلانٹ نصب کیے گئے لیکن پٹرول کی فراہمی شروع ہوئی تو پھر یہ منصوبہ وہیں رک گیا اور اسے سرکاری سطح پر پذیرائی نہ مل سکی اور یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔
agha waqar hero
اب اگر پاکستان میں اس نئے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جائے تو توانائی کے بحران پر قابو پانے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔