دکھ کے ان دنوں میں جب میں ایک بجھتے ہوئے ٹیبل لیمپ کی مدھم روشنی میں کہ پچھلے تین گھنٹوں سے بجلی بند ہے اور یو پی ایس آخری سانس لے رہا ہے اور میں اس عذاب میں مبتلا ہوں کہ ایک مرتبہ پھر بجلی کا بل بائیس ہزار روپے آ چکا ہے یعنی وہ بجلی جو نہیں آتی لیکن اسکا بل آتا جاتا ہے تو اس بل کو میں اپنے محدود ذرائع سے کیسے ادا کرونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کالم لکھ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے تو میں محترم وزیراعظم صاحب کا بے حد شکر گزار ہوں کہ دانشوروں اور ادیبوں سے ملاقات کے دوران میں نے گفتگو کرتے ہوئے بجلی کے اس بل کا حوالہ دیا تھا اور پوچھا تھا کہ حضرت یہ فرمائیے کہ میں ایک مالی طور پر ناتواں ادیب اتنی رقم ادا کرنے کیلئے کہاں سے لاؤں اور میں وزیراعظم صاحب کا شکر گزار بھی ہوں کہ انہوں نے کسی تقریر میں بجلی کے اس بل کے بارے میں کچھ ارشاد بھی فرمایا تھا لیکن میرے کام کچھ نہ آیا، یہ کمال نے نوازی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اس ماہ بھی بجلی کا بل بائیس ہزار روپے ہی آ گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہر طور اور بھی دکھ ہیں زمانے میں بجلی کے سوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ان دکھوں کو فراموش کرنے کی خاطر کچھ مزید چھوٹی سی باتیں عرض کیے دیتا ہوں۔
Mustansar Hussain Tarar
محبت وقت گزاری کیلئے نہیں، عمر گزاری کیلئے ہونی چاہیے۔
اگر محبت اندھی ہوتی ہے تو شادی کرنے سے انسان کی آنکھیں دیکھنے لگ جاتی ہیں، کسی کو جان لینا، کسی کی جان لینے سے بہتر ہے۔
قلم ذہن کی زبان ہے۔
صرف وہی کشتیاں چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہوتی ہیں جو ساحل کیساتھ ساتھ چلتی ہیں۔
ایک بیزار شکل والے انسان کو دیکھنے سے ایک پرمسرت اود بلا کو دیکھنا بہتر ہے۔
کامیاب شادی کا راز صرف تین لفظوں میں پنہاں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ درست بیگم صاحبہ۔۔۔۔۔۔۔۔
روزانہ ایک ہی ڈش پکا کر اسے مختلف نام دینے والے کو باکمال باورچی کہتے ہیں۔
چالیس برس کا بوڑھا ہونے سے ستر برس کا نوجوان ہونا بہتر ہے۔
آپکا انتظار یا تو ماں کرتی ہے یا قبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گدھے اور زیبرے میں صرف ذوق لباس کا فرق ہوتا ہے۔
قدرت کا حسن کبھی نہیں دھندلاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف عمر کیساتھ آنکھیں دھندلا جاتی ہیں۔
وقت جوانی کا چور ہے۔
آہیں بھرنے سے بہتر ہے کہ انسان گھر کا پانی بھرے۔
زندگی کے اخبار میں سب سے خوبصورت بچوں کا صفحہ ہوتا ہے۔
محبت ایک ایسی تتلی ہے جو ہمیشہ کانٹے کی نوک پر بیٹھتی ہے۔
زندگی ایک ون وے اسٹریٹ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ جا سکتے ہیں، واپس نہیں آ سکتے۔
وقت ایک ایسا آوارہ گرد ہے جو کسی بھی منزل پر نہیں رکتا۔
روٹھنا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اتنا بھی نہیں کہ منانے والا تنگ آ کر روٹھ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے تمام بادلوں میں پانی نہیں ہوتا۔ ایسے تمام دلوں میں محبت نہیں ہوتی۔
محبت بھری نظروں سے دیکھنے والا ضروری نہیں کہ آپکا خیرخواہ ہو کہ بلی بھی تو کبوتر کو محبت بھری نظروں سے دیکھتی ہے۔
آپ اپنے سائے میں خود نہیں بیٹھ سکتے تو دوسروں کو بیٹھنے دیجیے۔
اکثر بڑے گھروں میں چھوٹے اور چھوٹے گھروں میں بڑے لوگ رہتے ہیں۔
دنیا میں بدترین وہ لوگ ہوتے ہیں جو مور کو رقص نہیں کرنے دیتے، اسے ہلاک کر کے کڑاہی گوشت کھا جاتے ہیں۔
عظیم عورت وہ ہوتی ہے جو خاوند کی جائز آمدنی میں گزارا کرے۔ اوپر کی آمدنی کیطرف اشارہ نہ کرے۔
پیاسا ہونے سے بہت پہلے کنواں کھود لینا چاہیے۔
جو جانتے ہیں وہ بولتے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو بولتے ہیں وہ جانتے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت کا حساب کرنے والے عاشق نہیں منشی ہوتے ہیں۔
کے ٹو کی چوٹی بہت بلند ہے لیکن ایک تنہا کوہ پیما جو اس تک جا پہنچتا ہے اس سے بلند ہوتا ہے۔
بڑھاپا ایک ایسا مکان ہے جس کی ساری کھڑکیاں ماضی کیطرف کھلتی ہیں۔
پرندے کا گیت سمجھنے کیلئے پرندہ ہونا ضروری نہیں۔
ہاتھی کو یہ تسلی دینے والے کہ تم مر جاؤ تو سوا لاکھ کے ہو جاؤ گے، ہاتھی کے دوست نہیں ہوتے۔
جل کر کباب نہ ہو جائیے، کھل کر گلاب ہو جائیے۔
ہر گدھا دیوار پھاندنے سے پہلے اپنے آپکو ہرن سمجھتا ہے۔
چہرے پر زردی آ جائے تو بیمار، چنبیلی پر زردی آ جائے تو بہار۔
ہاتھی کو زبردستی کار میں نہ بٹھائیے ورنہ آپ کے چاروں ٹائر پنکچر ہو جائینگے۔
پھل موسم کا، محبت بے موسم کی اور دوست ہر موسم کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر شخص اتنا عقلمند نہیں ہوتا جتنا کہ اسکی ماں سمجھتی ہے اور ہر شخص اتنا بیوقوف نہیں ہوتا جتنا کہ اسکی ساس سمجھتی ہے۔
تاریخ سیکھنا آسان ہے لیکن تاریخ سے سیکھنا مشکل ہے۔
اگر ایک خاتون کو فورا خوبصورت کہہ دیا جائے تو اسے آپکے بقیہ جھوٹ بھی سچ نظر آنے لگیں گے۔
ایک ذرہ صحرا نہیں ہوتا لیکن ذرے کے بغیر صحرا بھی صحرا نہیں ہوتا۔
کھٹملوں کو ختم کرنے کیلیے پوری چارپائی جلا دینا دانشمندی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے شک جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا لیکن یوں اسکی ریہرسل تو ہوتی رہتی ہے۔
مرد اپنی سالگرہ پر دفتر سے ایک دن کی چھٹی کرتا ہے ، عورت اپنی سالگرہ پر عمر سے دو تین برس کی چھٹی کر لیتی ہے۔
زندگی مٹھی بھر پھولوں کے بیج ہیں، انہیں دکھوں کی زمینوں میں بو دیجیے۔
جو شخص اتنا سست ہو جائے کہ وہ سوچ بھی نہ سکے، اسے شادی کر لینی چاہیے۔
پہلی نظر میں محبت میں مبتلا ہو جانے والے اگر دوسری نظر بھی ڈال لیں تو یہ انکے مستقبل کیلئے بہتر ہو گا۔
دانائی کا تعلق عمر سے نہیں ہوتا ورنہ کچھوے سب کے سب ارسطو ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس روز ماں مرتی ہے چاندنی مدھم ہو جاتی ہے اور جس روز باپ جدا ہوتا ہے سورج بجھ جاتا ہے۔