توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ نے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو مجرم قرار دیتے ہوئے تادم برخاست عدالت قید کی سزاسنادی تقریبا تیس سیکنڈ کی سزا عدالتی کارروائی کے اختتام کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔ وزیر اعظم گیلانی کو سزایقینی طور پر ملکی تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے اس سے قبل کسی بھی سربراہ حکومت کو توہین عدالت کے معاملے میں سزانہیں ہوئی۔ عدالت عظمی کی طرف سے دی جانے والی سزا کے وطن عزیز پر دور رس نتائج مرتب ہونگے۔ عدالتی فیصلے سے ایک بات واضح ہوگئی کہ آئین و قانون کی نظر میں کوئی برتر نہیں سب برابر ہیں، اگر وزیر اعظم آئین کی خلاف ورزی کرے گا تو انہیں بھی سزا ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ثابت ہو گی کہ آج ملک میں عدلیہ آزاد ہے جو فیصلے کسی دباؤ کے بجائے میرٹ پر کر رہی ہے۔
آئین و قانون کی بالادستی کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ ملکی تاریخ میں اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔ عوام کو عدالتوں سے ہمیشہ یہ گلہ رہا کہ اگر کوئی غریب معمولی سا جرم بھی کرے تو اسے پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے، لیکن امرا کچھ بھی کریں انہیں قانون کی گرفت میں نہیں لایا جاتا، یہی طبقہ آئین جیسی مقدس دستاویز کوبھی پائوں تلے روند ڈالتا ہے لیکن انہیں کوئی کہتا ہی کچھ نہیں۔ کم از کم سات رکنی بینچ کے اس فیصلے سے اس تاثر کو بھی ختم کرنے میں کافی حد تک مدد ملے گی۔
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو سزا سنائے جانے سے ایک نئی تاریخ رقم ہو گئی ہے، سزا کے بعد قانونی ماہرین کی آرا مختلف ہے ہم اس بحث میں پڑنے کے بجائے یہی کہیں گئے کہ وطن عزیز میں ایک نئی صبح کا آغاز ہو چکا ہے، وہ سورج طلوع ہو چکا ہے جو اپنے ساتھ اٹھارہ کروڑ عوام کے لئے امید کا پیغام لے کر آیاہے۔ سید یوسف رضا گیلانی کو اگرچہ چند لمحوں کی قید سنائی گئی لیکن اس سے ان کا سیاسی مستقبل داؤ پر لگ گیا۔ آئندہ کوئی بھی شخص آئین و قانون کی خلاف ورزی کرنے سے قبل یہ ضرور سوچے گا کہ کہیں اسے بھی اس طرح کی سزا کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عدالت عظمیکے فیصلے سے جمہوریت کو بھی پنپنے کا موقع ملے گا عدالتی فیصلے سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ادارے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں جب کسی ملک میں ادارے اپنی حدودوقیود میں رہتے ہوئے مضبوط ہونے لگیں تو وہاں جمہوریت کو مستحکم ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
توہین عدالت کیس کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات ہمارے سامنے آئے گی کہ عدالت نے شروع دن سے ہی وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے کہا تھا کہ وہ این آر او عمل درآمد کیس بارے عدالتی فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل کریں لیکن ہر بار وزیراعظم شہداء کے خون سے وفا نبھانے کی باتیں کرتے ہوئے عدالتی حکم سے روگردانی کرتے رہے۔ ہمارے خیال میں ملک کے چیف ایگزیکٹو کے لئے آئین و قانون سے بالا تر کوئی چیز نہیں ہوتی جماعتی وابستگی اپنی جگہ لیکن آئین وقانون پر عمل درآمد اس کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے سید یوسف رضا گیلانی ایسا کرنے میں بری طرح ناکام رہے اگرچہ وہ بارہا عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کے دعوے کرتے نظر آئے لیکن عملی طور پر انہوں نے کبھی اس جانب توجہ ہی نہیں دی۔
سپریم کورٹ نے کمال تحمل کامظاہرہ کرتے ہوئے انہیں متعدد بار مواقع فراہم کئے کہ وہ سوئس حکام کو خط لکھیں مگر وزیر اعظم میں نہ مانو ںکی ضد پر قائم رہے، سپریم کورٹ نے ان کیساتھ اتنی نرمی برتی کہ لوگوں میں مختلف چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں کہ جان بوجھ کر وزیر اعظم کو ٹائم دیا جا رہا ہے لیکن عدالت نے کسی چیز کی پروانہ کرتے ہوئے آخری حد تک وزیراعظم گیلانی کو موقع فراہم کیا۔ لیکن سید یوسف رضا گیلانی جو پہلے ہی سیاسی شہید بننے کا ارادہ کر چکے تھے انہوں نے ایسا نہیں کیا۔اب جب کہ عدالت نے اس حوالے سے واضع فیصلہ دے دیا ہے۔
ہماری رائے میں عدالتی فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جانا چاہیے۔ پیپلزپارٹی کے بعض وزرا کی جانب سے جمعرات کو ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دینے جیسے بیانات دینے کے بجائے ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ آخر وہ کونسی وجوہات تھیں جن کی بنا پر عدالت عظمی کو ایسا فیصلہ کرنا پڑا۔ ہماری دانست میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کو موقع غنیمت سمجھتے ہوئے اپنی اصلاح کرنی چاہیے، بغیر کسی چوں چراں سوئس حکام کو خط لکھ دینا چاہیے،مہذب دنیا میں اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی سربراہ حکومت عدالتی فیصلوں سے روگردانی کرے۔ ہمارے سیاسی اکابرین کو بھی ایسی مثالیں قائم کرنی چاہیں جن سے یہ بات واضح ہو کہ وہ ذاتی یا سیاسی مفادات سے بالا تر ہو کر عدالتی فیصلوں پر ان کی روح کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ عدالتی فیصلوں پر گھیراؤ جلاؤ اور احتجاج کیا جائے بدقسمتی سے وطن عزیز میں ایسی روایت ڈال دی گئی کہ فیصلہ اپنے مفادات کیخلاف ہو تو اس پر ہم احتجاج شروع کردیتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے پیپلز پارٹی کو اپنے جیالے سڑکوں پرلانے، سندھ اور سرائیکی کارڈ کی باتیں کرنے کے بجائے ملکی بقا اور سلامتی کو مقدم رکھتے ہوئے فیصلے کرنے چائیں۔
آج وطن عزیز کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے ایک طرف پاکستان کے دشمن ہمیں آنکھیں دکھا رہے ہیں تو دوسری دہشت گردی، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل کے باعث عوام کا جینا دوبھر ہوچکا ہے، ایسی صورتحال میں پوائنٹ سکورنگ اور سیاسی شہادت کے حصول کی کوشش کو ترک کر کے قومی مفادات کو مقدم رکھا جائے یہی حالات و وقت کا تقاضا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ اگر پاکستان پیپلز پارٹی نے حسب عادت عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے لئے تاخیری حربے استعمال کئے تو یقینی طورپر اس کے نتائج انتہائی بھیانک ہونگے۔ جمہوریت کا بوریا بستر بھی گول ہوسکتا ہے،عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے سے ملک میں انارکی بھی پھیل سکتی ہے جس کا فائدہ غیر جمہوری طاقتیں اٹھا سکتی ہیں۔ موجودہ صورتحال میں حکومتی جماعتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد یقینی بنائیں پیپلز پارٹی کے اکابرین اور کارکن فیصلے پر تنقید کرنے کے بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور یہ سوچیں کہ عدالت نے وزیراعظم کو سوئس حکام کو خط لکھنے کے لئے کتنا ٹائم دیا اور حکومت کی طرف سے عدالتی تضحیک کے ساتھ ساتھ عجیب وغریب حیلے بہانے بھی کئے گئے۔
مہذب اقوام میں اس طرح کے فیصلوں کو ایک خاموش انقلاب سے تعبیر کیا جاتا ہے ہمارے خیال میں پاکستانی قوم کی خوش قسمتی ہے کہ اسے آج آزاد عدلیہ نصیب ہوئی ہے جس کے تاریخ ساز فیصلے سے نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان کا وقار بلند ہوا بلکہ ملک میں آئین وقانون کی حکمرانی بھی یقینی بن گئی۔