امریکہ میں فلمائ گئ فلم جو کہ اسلام اور ہمارے نبی کریم ﷺکے بارے شر انگیزی پر مبنی تھی (یقیناً اسلام اور ہمارےنبی کریم ﷺاس سے باہر ہیں)، فوری عالمی ایجنڈے پر غالب ہو گیٔ۔ ۔کچھ لوگ فوری طور پر اس مشتعل انگیزی کا شکار ھو گئے ہیں۔ اُن لوگوں نے احتجاج کرتے ہو ئے سفارت خانوں پر حملے کیے اور یہان تک کہ لوگوں کو بھی قتل کیا۔ انہوں نے حکومتوں، ریاستوں، اقوام، نسلوں اور مزاحب پہ الزام صرف ایک عام فلم کی وجہ سے لگایا جو کہ ایک عام آدمی کي غلط بیاني کي پيدا کردہ تھی۔ اخبارات نے اپنے نکتئہ نظر سے ايک ايسے جارحانہ، نفرت سے بھرے مسلمان کا نقشہ پيش کيا، جو جھنڈے جلاتا ہے اور وحشی سرگرميوں ميں ملوث ہے۔ اسکيساتھ ہئ ‘خونيں اسلام’ کا ايک زبردست پراپيگنڈا شروع کرديا گيا ہے۔ مدتوں سے غير اسلامی عناصر نے ايسے پراپيگنڈا کے مواد کو جيسا چاہا توڑ موڑ کر پيش کيا اور اسے اپنے مفادات کيلئے استعمال کيا۔
اس اشتعال انگيزی نے تھوڑے سے عرصے ميں اپنا مقصد حاصل کرليا جبکہ: نتيجتاً، ايک عام سے اسلام مخالف پروڈيوسر کی بہت ہی عاميانہ فلم، جو حقائق سے قطعی لا تعلق اور خرافات پر مبنی تھی، کو عالمگير شہرت کا حامل بنا دياہے۔ يہ پراسرار فلم، جوايسی من گھڑت کہانيوں پرمشتمل ہے جنکو بصورتِ ديگر اگر ايسے حالات درپيش نہ آتے توکویٔ ديکھنا تک پسند نہيں کرتا، بھی شہرت حاصل کر گیٔ ہے۔
ايسے لوگ جو اپنے تئیں اسلام کو ايک خونی اور ناشأستہ مزہب کےطور پر دکھانے ميں مصروفِ عمل رھتے ھيں، اُن کے ناپاک عزائم پورے ھوگئے ھيں اور وہ جو کہتے ہيں کہ ‘‘ﷲايک ہے’’ ايک دوسرے کيخلاف کر ديے گۓ ہيں۔
حيرانگی کی بات يہ ہے کہ ايک گستاخ اسلام مخالف شخص کے کہنے پر مسلمانوں نے فی الفور يقين کر ليا کہ يہ فلم ھمارے پيارے رسول ﷺکے بارے ميں تھی۔ يہ ايک گستاخ شخص کا ناقابلِ سمجھ بيان اسقدر سنجيدگی سے ليا گيا کہ مسلمانوں نے بغير حقيقت سمجھتے ہوۓ کہ وہ اسطرح اشتعال انگيزی کو پھيلانے کا موجب بن رہے ہيں، اس شخص کے ايسا کہنے کو اختيار کر ليا۔ وہ سمجھ نہيں پاۓ کہ وہ ايک جال ميں پھنساۓ جا رہے ہيں۔ وہ احساس نہيں کر پاۓ کہ اُس غريب، عام آدمی کا مقصد شہرت حاصل کرنا اور مزاہب کو منتشر کرنا ہے۔ تاہم حقيقت يہ ہے کہ ايمانداروں کو قرآن پاک کيمطابق سوچ کو اپنانا چاہيۓ تھا اور اس بات کا احساس کرنا چاہيۓ تھا کہ وہ ايک عام آدمی کے مقصد کے حصول کا باعث بن گۓ ہيں۔ اُنہيں اس بات کو سمجھ لينا چاہيۓ تھا کہ وہ ايک غير معروف آدمی کو ايک بہت اہم شخصيت بنانے کا باعث بن گۓ۔
تذلیل اُن کی ہوتی ہے جو اِسے اپنی زبان سے ادا کرتے ہيں۔ اِس فلم کے بنانے والے نے اپنا آپ اسميں بتايا اور يوں اپنی تذلیل خود انجام دی۔
ايک مشہور محاورہ ہے تذلیل اُن کی ہوتی ہے جو اِسے اپنی زبان سے ادا کرتے ہيں۔ اِس فلم کے بنانے والے نے يہ فلم اپنے اوپر بنایٔ۔ اس فلم ميں اُس نے اپنے خراب کردار کی خصوصيات کو اپنے بگڑے ہوۓ خيالات کے ذريعے بيان کيا اور اسطرح اپنی ذات کی خود تذلیل کی۔
يہ بہت اثر انگيز بات ہے کہ مسلمانوں نے اسطرح کے بہت عام سے آدمی کو جو بزات خود اپنی تزليلانہ صورتحال کا شکار ہے اتنی سنجيدگی سے ليا۔
ليکن سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ مسلمان کيوں اتنی تيزی سے مشتعل ہو گے ہيں؟ اسکی دو وجوہات ہيں۔ پہلی؛ غفلت اورلا علمی۔ دوسری؛ انتہا پسندی يعنی غير برداشتگی۔ تاہم حقيقت يہ ہے کہ لاعلمی ايک ايسا تصور ہے جسميں غير برداشتگی بھی شامل ہوتی ہے، کيونکہ ہماری روزمرہ زندگی ميں اکثر لوگ غير برداشتگی کے تجربے کو اسلامی طريقہ مفروض کر ليتے ہيں۔ وہ خيال کر ليتے ہيں کہ غصہ کرنا اور خون کھولنا ايک مسلمان ہونے کيلۓ ضروری ہے۔ اس وجہ سے، وہ گستاخی پر اُتر آتے ہيں، سفارتخانوں پر حملے کرتے ہيں، لوگوں کو قتل کرتے ہيں، ممالک اور اقوام کو لعنت ملامت کرتے ہيں، جھنڈے جلاتے ہيں اور لگاتار خون و انتقام کا ذکر کرتے رہتے ہيں۔
اِن مسلمانوں کو اس چيز کی بھی آگہی نہيں کہ درحقيقت وہ ايک گناہ کے مرتکب ہو رہے ہيں۔ ايسے لوگوں کی اکثريت تعصب کی وجہ سے قرآنی تعليمات سے دور ہوتی جارہی ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ قرآن پاک کيمطابق کسی معصوم کی جان لينا، مزاہب، اقوام اور نسلوں کو دشمن قرار دے دينا؛ انسانيت کو نفرت اور خوف کا عکس دينا غير قانونی ہے۔ اِس طريقےسے يہ لوگ خود کُشياں کرنے لگتے ہيں۔ تعصبيت کے غلط عقائد کے زيرِاثر، وہ اپنے بناۓ ہوۓ گمراہ شدہ مزہب کوہی اصل مزہب سمجھنے لگتے ہيں۔ تاہم مزہب ميں قرآن پاک کيمطابق زندگی بسر کرنے کا مطلب ہے غصے کے بيج کو نکال باہر پھينکنا اور ہر کسی کو ہر قسم کے مزہب، زبان، نسل اور قوم کيساتھ پيار سے پيش آنا۔ اسی ليۓ اِن لوگوں کوضرورت ہے کہ وہ فی الفور قرآنِ پاک کی اصل روح رواں کو سمجھنے کی کوشش کريں۔
شيطان کا مقصد ہے کہ وہ ايمان والوں کے اندر نفاق پيدا کرے؛ مگر مسلمانوں کو ايسا نہيں ہونے دينا چاہيۓ۔
شيطان کی ہميشہ سے کوشش رہی ہے کہ وہ ايمان والوں کا ايمان کمزور کردے اور وہ مختلف خرابيوں کے ذرائع کواس طرح حرکت ميں لاۓ کہ اُن کے درميان عليحدگی پيدا ہو جاۓ۔ شيطان نے ہميشہ غير ايمانداروں کے اکٹھا ہونے کا فائدہ اٹھايا ہے، کچھ مسلمانوں نے اہلِ کتاب (عيسایٔ اور يہودی) کيخلاف بُرے عزايمٔ رکھے، جِن ميں سے کچھ قرآنِ پاک ميں مخلص بتاۓ گۓ ہيں اور ايسی اشتعال انگيزيوں کی وجہ سے اِن تين مزاہب کے لوگوں کے درميان فاصلہ بڑھ رہا ہے۔
اِسکی وجہ يہ ہے کہ شيطان کو پتہ ہے کہ ‘‘ﷲ ايک ہے’’ کہنے والے اور پيار کے پيامبروں کا ملاپ دنيا بھر ميں ايک غير معمولی اور ناقابلِ شکست طاقت بن کر اُبھرے گا۔ اسليۓ خالص مسلمانوں کو ضرور قرآن اور ہمارے رسولﷺ کی حديث پاک کيمطابق سوچ ڈھالنی چاہيۓ اور شيطان کے ناپاک عزأم کے بارے ميں آگاہی رکھنی چاہيے۔
ہميں بطور مسلمان اپنے مزہبِ اسلام کی اُن تمام ضروريات کو پورا کرنا چاہيۓ جو پيار، خوبصورتی، امن، مہربانی، جمہوريت اور قربانی کا درس ديتی ہيں۔
۔ ہميں مزہب اور نسل کی پرواہ کيۓ بغير مسلمانوں، عيسائوں، يہوديوں اور تمام بنی نوعِ انسان کو حقيقی محبت کيساتھ ميل جول رکھنا چاہيۓ۔
۔ ہميں اشتعال انگيزی دلانے والوں کے بگڑے ہوۓ استدلال کو نکال باہر پھينکنا ہے جسکی مد د سے وہ اسلام کيخلاف سازشيں کرنے کی کوششوں ميں لگے رہتے ہيں اور تمام مسلمانوں، عيسائوں، يہود کے درميان ملاپ کا خاتمہ کرنے ميں لگے رہتے ہيں اور اُن کو بھی جو پيار اور رفاقت سے دوری رکھتے ہيں۔
۔ ہميں يہ بات ہميشہ ذہن نشين رکھنی چاہيۓ کہ دنيا ميں تمام اختلافات ايمانداروں کے درميان نفاق ہونے کی وجہ سے پيدا ہوتے ہيں۔ يہ بات قرآنِ مجيد ميں اسطرح بيان کی گیٔ ہے: جو لوگ منکر ہيں وہ ايک دوسرے کو دوست اور محافظ بناتے ہيں۔ اسلئے اگر تم اس طريقے سے نہيں چلوگے تو زمين پر افراتفری اور بہت فساد پھيلے گا۔ (سورۃ اﻻنفال، ۷۳)
کویٔ بھی آکر نہيں کہہ سکتا کہ، ‘‘ميں نے ايک اسلام مخالف فلم بنایٔ ہے’’ يا ‘‘ميں نے اسلام مخالف کارٹون بناۓ ہيں’’ جب؛
۔ ايمان والے اشتعال انگيزيوں کے سامنے اپنے اتحاد کا مظاہرہ کريں گے،
۔ اچھے لوگ پيار اور مہربانی سے ايک دوسرے کو گلے لگائنگے،
۔ جب ‘‘ايک ﷲ’’ کہنے والے لوگ متحد ہو کر ايک ہو جائنگے اور اپنے اتحاد کی طاقت کو قايمٔ کرينگے۔
پھر ايسے لوگ ايمانداروں کے طاقتور اتحاد اور پيار کے سفير ہونے کی وجہ سے ايسی شرپسند کارروایٔاں کرنے کی قوّت بڑی آسانی سے کھوبيٹھے گے۔ اُنہيں اپنے اتحاد اور طاقت کے کھونے کا خوف اپنے اُوپر قابو رکھنے کيلۓ کافی ہوگا۔
اشتعال انگيزوں کيخلاف سب سے بڑا انتقام يہ ہوگا کہ دنيا کے تمام مزاہب کے افراد پيار اور امن کی چھتری تلے اکٹھے ہو جائں۔ اس اتحاد کو قايمٔ کرنا ھم سب مسلمانوں کا فرضِ اوّلين ہے، کيونکہ ﷲ کی قرآنِ حکيم ميں ھمارے لئے يہی ھدايت ہے۔