خبر ہے کہ تربیلا ڈیم سے پانی کے اخراج میں کمی کے باعث بجلی پیدا کرنے والے 5یونٹ بند ہوگئے ہیں جس سے بجلی کی پیداوار میں مزید 1200میگا واٹ کی کمی ہوگئی ہے تربیلا ڈیم میں بجلی پیدا کرنے والے 14پاور یونٹ ہیں جن کی پیداواری صلاحیت 3478 میگاواٹ ہے اور اب تربیلا ڈیم سے بجلی کی پیدوار میں کمی کے باعث ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بھی بڑھے گا پاکستان میں بجلی ایک بنیادی اور اہم مسئلہ بنا ہوا ہے ہر حکمران پچھلے پر ذمہ داری ڈال کر چین کی بانسری بجا رہا ہے عوام سے کیے گئے بار بارکے وعدوں کے باوجود بجلی کا بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا حکومتی وزیر اور مشیر بیان بازی کرتے ہوئے ایسے محسوس ہوتے ہیں جیسے یہ دنیا کو فتح کرنے نکلے ہوئے ہیں نہ انہیں عوام کی فکر ہے نہ ملک کی خود کو اپنے سے اوپر والوں کی خوشنودی کی کیلیے وقف کررکھا ہے اس وقت ملک میں کوئی بھی سیاستدان ایسا نہیں جو عوام کو ان اندھیروں سے نکال سکے حکومت میں شامل عوامی نمائندوں نے چور بازاری کا بازار گرم کررکھا ہے عدالتوں کے فیصلوں پر عملدرآمد کی بجائے الٹا انکا مذاق اڑایا جارہا ہے غریب اور مجبور انسانوں کوسی این جی کیلیے لائینوں میں لگا کر دن رات انکا تماشا ٹیلی ویژن پر دکھایا جا رہا ہے۔
حکومتی سیاستدان مختلف ٹی وی پروگرامز میں گلے پھاڑ پھاڑ کر بلند و بانگ دعوے کررہے ہوتے ہیں کہ ملک میں جمہوری حکومت ہے اور عوامی فلاحی کام کئے جارہے ہیں مگر دوسری جانب آئے روز نئے نئے بحران جنم لے لیتے ہیں جوکہ باعث تشویش ہیں حق تو یہ تھا کہ جمہوری حکومت عوام کی مشکلات کا احساس کرتی مگر جب موسم گرما کا آغاز ہوتاہے تو بجلی کی لوڈشیڈنگ عوام پر مسلط کردی جاتی ہے اور اب جیسے ہی موسم سرما شروع ہوا ہے گیس کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے جبکہ گیس لوڈ مینجمنٹ کی تلوار بھی عوام کے سروں پر لٹکائی جارہی ہے جب تک بحران کے حوالے سے ایک ٹھوس حکمت عملی مرتب نہیں کی جاتی اور مستقل حل تلاش نہیں کیا جاتا اس وقت تک ملک کوبحرانوں سے باہر نہیں نکالاجاسکتا موجودہ جمہوری حکومت پانچ سال پورے کرنے کو ہے اور ابھی تک عوا م تک جمہوریت کے ثمرات نہیں پہنچے مگر ایک بات ہے کہ اس جمہوری دور کے سب ہی سیاستدانوں نے خواہ وہ اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں خوب دل کھول کر لوٹا ہے کسی نے نوکریوں کی آڑ میں تو کسی نے ٹھیکوں کی آڑ میں اور انکو دیکھتے ہوئے انکے چیلے بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔
انہوں نے بھی اپنی چھریاں تیز ہی رکھی اور ہر آنے والے سائل پر ہاتھ پھیرنا انکے بھی فرائض میں شامل رہاپاکستان میں اس وقت لوٹ مار کی جو منڈی لگی ہوئی ہے اس میں سب سیاستدان ملوث ہیں کہ کیونکہ احتساب کا نظام پاکستان میںبلکل ختم ہو چکا ہے جو جتنا بڑا ڈاکو ہے اتنے بڑے عہدے پر بیٹھا ہوا ہے اور باقی سب چھوٹے چھوٹے ڈاکو اسے بچا بھی رہے ہیں اور خود بھی کھا رہے ہیں جہاں سیاستدانوں نے اس ملک کا بیڑہ غرق کررکھا ہے وہاں سرکاری ادارے بھی کسی سے کم نہیں ہیں پاکستان میں ترقیاتی کام تقسیم کرنے اور انکی نگرانی کرنے والے ادارے بھی گردنوں تک کمیشن کی کرپشن میں دھنسے ہوئے ہیں ایک کلرک سے سیکریٹری تک اپنا حصہ ایسے لے رہا ہے جیسے اس کی تعیناتی والے لیٹر پر لکھا ہوا ہو کہ آپ نے ہر ٹھیکہ میں سے کمیشن بھی لینا ہے بعض جگہوں پر تو ایسے ایسے افراد کو بڑے بڑے عہدوں پر بٹھایا گیا ہے جو نہ اس کے اہل ہیں نہ اس معیار پر پورا اترتے ہیں مگر انکا معیار صرف یہ ہے کہ انہوں نے عوامی فلاحی ٹھیکوں اور ٹھیکے داروں سے پیسے کما کر بریف کیس بھر کر اوپر تک پہنچانے ہوتے ہیں۔
Mian Manzoor Wattoo
ایسا ہی ایک فرد جو ایف آئی اے کا ملز م بھی ہیں اور کرپشن پر جیل بھی جا چکا ہے کو ہمارے موصوف وزیر میاں منظور وٹو نے ساہیوال میں اہم عہدے پر نواز رکھا ہے جو وٹو صاحب سے پہلے فیصل صالح حیات کا بھی چمچہ رہ چکاہے یہ صرف ایک ادارے کا حال نہیں پاکستان کے ہر ادارے میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور جہاں لوٹ مار سر فہرست ہو وہاں عوام کا بھی برا ہی حال ہوتا ہے عوام بھی کوشش کرتی ہے کہ وہ بھی سیاستدانوں کی طرح راتوں رات امیر بن جائے اسی لیے تو کوئی بولنے والا نہیں سننے والا نہیں اور دیکھنے والا بھی نہیں سب یہاں اندھے،گونگے اور بہرے ہیں جسکی جو مرضی کرتا پھرے جتنی جس میں ہمت ہے لوٹ لے ،ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے ،انجام گلستان کیا ہوگا۔