آج کہنے کو ایک طویل عرصہ گذر گیا پاکستان کو بنے ہوئے لیکن اس سے زیادہ مشکل اور نازک دور بہت سے نازک ادوار میں بھی نہیں آئے تھے جیسا نازک اور خوفناک وقت پاکستان پراب ہے یہ وقت یہ ماحول ایک دن ایک مہینے ایک سال کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ کئی کئی دہائیوں کا پوشیدہ خفیہ معلومات کے تبادلے کا نتیجہ ہے یا پھر ہماری غیر متوازن سوچ کا خمیازہ ہے جو ہم کو بھتگنا ھے قدامت پسندی اور جدت پسندی یہ دو سوچیں ہمشہ ہی سے متصادم رہی ہیں۔
پاکستان کی بد نصیبی ہے کہ یہاں کسی بھی ایک سوچ کو واضح اہمیت یا اہمیت حاصل نہیں ہوئی اتنے لوگ نہیں جتنی مذھبی سیاسی سماجی ثقافتی سوچوں کا طوفان آچکا ہے ، کئی شاطر زہنوں میں یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا، کہ عوام کی سوچ میں ٹکرا ھوگا تو انتشار پیدا ہوگا پوری دنیا میں آج ہم ایک مذاق بن کے رہ گئے، کیونکہ ہماری سوچ کی کوئی ایک مضبوط بیک گراونڈ نہیں سوچ کا ارتکاز اس وقت بہت ضروری ہو گیا ہے اس وقت ملک حالتِ جنگ میں ہے، اور اس وقت کا تقاضہ ہے، کہ ہم ایسے پروگرامز کا انعقاد کریں جس میں جزبہ حب الوطنی کااحساس اجاگرہو اور پاکستانی کمیونٹی میں لاابالی پن ختم کرکیانکوانکیاصل کی طرف راغب کیا جائے تاکہ غیر ملکی محفلوں میں داد دیکر اس وقت اپنے آپ کو لاپرواہ ظاہرنہ کریں شعور دینا چند لوگوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کسی اہم مقصد کو سوچنا پھر اسکو بہترین پیرائے میں عام انسان تک پہنچانا کیونکہ عام انسان پردیس میں تنہائی کا شکار ہے۔
اسکو اصل راستہ نہی معلوم کہ کیسے وہ بامقصد اور درست راستے کا تعین کرے کیسے، اس کو معیاری با مقصد سوچ دیں نہ کہ وقت کا ضیاع ، وہ ہر اس سمت لپکتا ہے جہاں اسکو چند لمحے سکون کے تفریح کے میسر آئیں ، لیکن یہ گھر کے بڑے سمجھاتے ہیں ، وقت کی نوعیت اس وقت سنجیدگی کی متقاضی ہے نہ کہ ہلے گلے کی ایسے لوگوں کیلیئے کہیں جانا بس وقت کو پاس کرنا مقصد ہوتا ہے معیار کا ہونا یا نہ ہونا اسکے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا، لیکن یہ ذمہ داران کا کام ہے کہ عام آدمی کو مثبت اور اصلاحی سوچ پر مبنی کسی قومی اہمیت پر مبنی موضوعات پر دعوتِ فکر و عمل دے جس سے نہ صرف قومی شعور پیدا ھو گا، بلکہ ذہنی ہم آہنگی کی جو وسیع خلیج ہمارے درمیان حائل ہے، وہ بھی پرکرنے میں مدد ملے گی۔
ایسے تمام لوگ جو کسی نہ کسی طرح سے عوامی رابطے میں ہیں ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس وقت تمام غیرضروری مصروفیات کو ترک کر کے صرف پوری سوچ اور پوری صلاحیت سے یہ سوچ کر مختلف پروگرامز کے انعقاد کریں ، کہ کہ عام آدمی کو غفلت سے جگائیں اور بتائیں کہ اسکا اپنا وجود اسکا ملک اسکی سالمیت اور اسکی عزت جان و مال کواس وقت بیرونی جارحیت کا اندرون اور بیرون ملک دونوں جانب سے شدید خطرہ لاحق ہے قوموں کو جگایا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے چند افراد ہوتے ہیں جن کو اللہ پاک نے یہ صلاحیت عطا کی ہوتی ہے کہ انکے کردار میں انکی شخصیت میں انکی سوچ میں اور زبان میں ایک سچائی ایک تڑپ ہوتی ہے جو سب کو اپنی جانب مائل کرتی ہے۔
پیرس میں پاکستانی کمیونٹی کا اعتبار چند سنجیدہ سوچ کے حامل لیڈران پر بلا شبہ ہے جو بات میں وزن رکھتے ہیں اور جزباتیت سے ہٹ کر ایسی گفتگو کرتے ہیں جو بِلاشبہ پائیدار اور معتبر کہلاتی ہے معیاری گفتگو ایک بڑے لیڈر کی اصل شناخت ہوتی ہے اور ایسے لوگ یاہں خال خال ہیں اور ملک کیلیئے دیارِ غیر میں رہ کر بھی بیحد سنجیدگی سے سوچتے ہیں پاکستان پردیس میں ہم سب کی بلاشبہ پہچان تو ہے؟ لیکن انفرادی طور پے اسکی نام کے ساتھ ہمارا معیار بڑھتا اورگھٹتا ہے آج بہت ضرورت ہیکہ سنجیدہ سوچ کے ساتھ اکابرین پیرس اکٹھے ھوکر پاکستان کیلیئے کوئی عملی کوشش شروع کریں جس سے یہاں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے گرتے ہوئے حوصلے از سرِنو مضبوط ھوں، اور انکو یہاں رہ کر پتہ چلیکہ انکے سر پے انکے ایسے مدبر سیاسی رہنما موجود ہیں جو سراسیمگی کی اس صورتحال میں انکے ساتھ ہیں اور اپنے ملک اور اپنے لوگوں کیلیئے نہ صرف فکر مند ہیں بلکہ انکے تحفظ کیلیئے عملی طور پے متحرک بھی ہیں عام لوگوں سے رابطہ صرف اور صرف قومی سوچ پر مشتمل پروگرامز کے زریعے ہی ممکن ہے اس وقت ایسے معیاری ور جامع پروگرامز کی اشد ضرورت ہے جو کسی کاروباری نکتہ نظر کیحامل نہ ہوں۔
بلکہ سو فیصد پاکستان کی سالمیت اور تحفظ کیلئے اجتماعی کوشش کا عملی ثبوت ہوں ایسے پروگرامز میں جب فیملیز کی شمولیت ہوتی ہے تو وہ تمام بچے جو اپنے گھروں سے باہر صرف تعلیمی اداروں تک محدود ہیں تو ایسے پروگرامز میں شرکت کرکیان کو تصویرکاایک نیا رخ نظر آتا ہے یہاں کے ماحول کی وجہ سیاس سے پہلے نہ اپنی کتب اورنہ ہی اپنے میڈیا سے دیکھ سکے اور پھر یہاں کی نئی سوچ لیکر انکے زہن پاکستان کیلیئے کوئی ایسی سوچ ضرور سوچیں گے، جو مغربی میڈیا اور ہمارے درمیان ایک پل کا کام کریگی اس لئے ایسے معیاری قومی یکجہتی پر مبنی پروگرامز کی کمیونٹی کو اسوقت شدید ضرورت ہے۔
دینی مدارس اپنے پلیٹ فارم سے بہترین کام کررھے ہیں لیکن ہمارے سیاسی سنجیدہ سوچ کے حامل لیڈرز کو اب میدانِ عمل میں اترنا ھو گا، اور اپنے مصروف وقت میں سے کچھ وقت پیرس کی محدود فضاں سے باہر نکل کر کمیونٹی کے عام رہائشی علاقے تک خود کو قابل عمل کرنا ھوگا تاکہ قطرہ قطرہ دریا بنے اور پاکستان بچاکیلیئے پہلی کوشش کا عملی قدم پیرس سے شروع کیا جائے۔
پھر دیکھئے جزبہ حب الوطنی کیسے کسی شوریدہ سمندر کی طرح پورے یورپ میں ایک نئے رحجان اور ایک نئی سوچ کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے اور کیسے یہ سوچ نئی نسل اپنے آپ کو منظم کر کے استحکامِ پاکستان کیلیئے میدانِِ عمل میں اترتی ہے۔
ایک قائد تھا جس نے چند سال باہر پڑھا اور ایک الگ ملک بنا دیا تو کای اتنے سارے بچے جو یہاں مقیم ہیں وہ سب مل جائیں گے توکیا استحکام پاکستان ممکن نہ ہو گا؟؟؟؟ ہو گا اور ضرور ھو گا انشااللہ۔