پاکستان کے عوام اپنی آزادی کی 64 ویں سالگرہ جیسے تیسے منا چکے، اب ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، امن و امان کی پریشان کن صورتحال، غربت، بے روزگاری میں اضافہ توانائی کے بحران کی موجودگی کے ساتھ ساتھ کراچی جیسے بین الاقوامی نوعیت کے شہر کی رونقیں ماند ہوتے دیکھ کر عید الفطر منا رہے ہیں، یہ وہی شہر ہے، جو پورے پاکستان کی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، سب سے زیادہ روزگار اور ریونیو بھی اسی شہر قائد سے حکومت اور عوام کو ملتا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف کراچی میں روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کی تعداد 32 لاکھ سے زائد ہے۔ اس شہر اور پھر بلوچستان کے حالات کی پریشانی اور دیگر اقتصادی و سماجی مسائل نے عید منانے کا مزہ ہی خراب کر دیا ہے، جس تیزی سے مہنگائی اور بدامنی بڑھ رہی ہے، اس سے بھی زیادہ تیزی سے عوام کی خوشیاں سمٹ کر سوگوار ہوتی جا رہی ہیں۔ ایک زمانے میں عیدین کے موقع پر کراچی ہو یا لاہور، پشاور ہو یا کوئٹہ یا پاکستان کا کوئی بھی شہر ہر جگہ عید کے دنوں میں مجموعی طور پر اربوں روپے کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ خوش مزاج چہروں کے ساتھ خواتین اور بچے خریداری کیا کرتے تھے۔ آج صورتحال اس کے بالکل برعکس ہوتی جا رہی ہے۔ پورا ملک ایک سے زائد مسائل سے دوچار نظر آ رہا ہے، یہی صورتحال بھارت کی بھی ہے، وہاں بھی کرپشن، لوٹ مار، یا امن و امان کی صورتحال اتنی اچھی نہیں ہے، جتنی نظر آ رہی ہے، لیکن وہاں کم از کم گورنس یا جمہوریت تو نظر آ رہی ہے، وہاں بھی انتہا پسندی کے کارخانے ہیں، وہاں بھی کئی ریاستوں میں علاقائی اور لسانی جھگڑے ہوتے ہیں، مگر وہاں جمہوریت کے کور میں ہر چیز چھپ رہی ہے، اور ہمارے ہاں جمہوریت کے دعوے داروں کے چہرے پر روز کئی الزامات اور خرابیوں کے حوالے سے بے نقاب ہوتے ہیں، وہاں تو ایک انا ہزا رے نے بھارتی حکومت کو مصیبت میں مبتلا کر دیا ہے، کہ اس کی طرف سے کرپشن کے الزامات کا مقابلہ کیسے کیا جائے، یہاں تو قوم کی اکثریت غیر اعلانیہ طور پر انا ہزارے کے نظریئے کے تحت کرپشن کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے۔ عدالت عالیہ بھی اس کا نوٹس لیتی ہے لیکن کسی حکومتی ادارے یا حکمرانوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ جبکہ بھارت میں جب سے انا ہزارے نے نیا طوفان کھڑا کیا ہے، وزیراعظم من موہن سنگھ اور ان کی حکومت کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، سب کچھ ہونے کے باوجود بھارت اقتصادی ترقی کے میدان میں بہرحال آگے جا رہا ہے، وہی بھارت جو 1951 سے 1992 تک دنیا سے 55 ارب ڈالر کی امداد کے سہارے چل رہا تھا۔ اب اس کے اقتصادی حالات اتنے زیادہ بہتر ہو گئے ہیں کہ وہی بھارت جہاں غربت اور بے روزگاری اور بدامنی کی شرح کبھی ہم سے کافی زیادہ ہوتی تھی۔ وہاں اب امریکی ادارے یو ایس ایڈ کی طرز پر ترقیاتی امور میں مختلف ممالک کو سپورٹ دینے کے لئے ایک علیحدہ ایڈ ایجنسی (انڈیا ایجنسی فار پارٹنر شپ ان ڈویلپمنٹ) قائم کی جا رہی ہے جو اگلے پانچ سے سات سالوں میں (IAPD) کے نام سے 11.3 ا رب ڈالر کے وسائل مختلف ترقی پذیر ممالک کو فراہم کرے گی اس بارے میں بین الاقوامی جریدے اکانومسٹ نے بھی اپنے گزشتہ شمارے میں کچھ تفصیلات دی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کا انحصار ایک زمانے میں ہم سے بھی زیادہ غیر ملکی امداد پر رہا لیکن اب وہ برازیل، روس، چین، اٹلی کی طرح ایڈ پروگرام (امدادی پروگرام) کے ذریعے خطہ میں اور پوری دنیا میں اپنے دوست بنانے کا پروگرام بنا رہا ہے اور اس حوالے سے دنیا میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ آج سے 10 سال 15 امیر ممالک سے ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک کو ایڈ ملا کرتی تھی۔ جس کے تحت امریکہ اب بھی 31 ارب ڈالر سے زائد امداد اس مد میں ایشیا، افریقہ اور دیگر ممالک کو دیتا ہے۔ نیو یارک یونیورسٹی کے WAGNER سکول کے سروے کے مطابق اس شعبہ میں چین دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر بھارت 2 ارب ڈالر سالانہ اس امدادی پروگرام میں مختلف ممالک کو دے گا تو وہ عالمی سطح پر آسٹریلیا ا ور بلجیم کے برابر آ جائے گا۔ جبکہ سعودی عرب، سویڈن اور اٹلی وغیرہ اس سے زیادہ فنڈز اس مد میں دیتے ہیں۔ بھارت نے مختلف ممالک سے تعلقات کی بہتری اور وہاں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے پچھلے سال پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد اقوام متحدہ کے توسط سے 25 ملین ڈالر امداد کا اعلان کیا تھا۔ اب وہ بھوٹان میں ہائیڈرو پاور کے ایک منصوبے کے لئے مالی سپورٹ کر کے فکسڈ ریٹ پر اس سے بجلی خرید رہا ہے اس طرح کا معاہدہ بھارت نیپال سے بھی کر رہا ہے جبکہ بنگلہ دیش اور سری لنکا کو بھی سافٹ لون مہیا کرنے کی پیشکش کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ افغانستان میں پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی تعمیر کے ساتھ ساتھ مواصلات اور دیگر شعبوں کی ترقی کے لئے بھی امداد اور فنڈز دے رہا ہے۔ ہمیں عید کے موقع پر یہ سوچنا چاہئے کہ پاکستان بھی اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ تو ہم کیوں ابھی تک غیر ملکی امداد پر انحصار کر کے 60 ارب ڈالر سے بھی زائد مالیت کے غیر ملکی قرضوں کے مقروض ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں دنیا کی پانچویں بڑی گولڈ مائن، دوسری بڑی سالٹ مائن ہے جبکہ پانچویں بڑے کوئلہ کے ذخائر اور تانبے کے ساتویں بڑے ذخائر ہیں، پھر بھی ہم آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کے محتاج بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں دنیا کے دوسرے بڑے ڈیمز، 3 نیو کلیئر ریکٹر، پانچ دریا ہیں پھر بھی بدقسمتی سے لوڈ شیڈنگ کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ پاکستان دنیا کی چھٹی (6) بڑی آرمی کے ساتھ ساتواں نیو کلیئر پاور والا ملک اور اسلامی دنیا کی سب سے مضبوط آرمی کے باوجود ہمارے حکمران اور ہم سب ڈرون حملوں پر خاموش ہیں، زرعی شعبہ میں گندم میں پاکستان زیادہ پیداوار کے حوالے سے 9 واں بڑا ملک، چاول میں ساتواں بڑا ملک ہے، لائیو سٹاک کی بھرمار ہے، پھر بھی ہماری 40 فیصد سے زیادہ آبادی غربت بلکہ غریب ترین زندگی گزار رہی ہے۔ یہ سب کچھ صرف ہمارے ہاں کیوں ہے! اس کی وجہ 64 سال سے قوم پر مسلط ہونے والے فوجی اور سیاسی تمام حکمران ہیں، اور اس سے زیادہ ہمارے عوام ہیں، جو محض روایتی نظام کے تحت حکمرانوں کو پہلے پارلیمنٹ میں بھجواتے ہیں اور پھر برداشت کرتے ہیں۔ پاکستان میں 1960 کی دہائی میں صدر ایوب خان نے جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتا ہی کے سولگن کے ساتھ غیر ملکی امداد پر انحصار ختم کرنے کا دعوی کیا تھا۔ لیکن پھر قوم نے دیکھا کہ ان کے دور میں سب سے زیادہ اقتصادی اور دفاعی امداد حاصل کی گئی۔ اس کے بعد کبھی کشکول توڑنے اور کبھی کسی اور نعرے کا استعمال کیا گیا لیکن غیر ملکی امداد پر انحصار کم نہیں ہوا اس سال عید یہ تقاضا کرتی ہے کہ چونکہ بھارت اور پاکستان اکٹھے آزاد ہوئے، بھارت اگر مختلف اصلاحات کے ذریعے اقتصادی میدان میں اتنی ترقی کر سکتا ہے کہ وہ اپنی ایڈ ایجنسی بنا لے تو پاکستان ایسا کیوں نہیں کر سکتا۔ پاکستان بھی یہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ صرف اس کے لئے قومی سوچ کے جذبے کے تحت رول آف لا اور اقتصادی ویژن کی ضرورت ہے۔ اگر وزیر خزانہ کے طور پر ڈاکٹر من موہن سنگھ 1991 میں بھارتی معیشت کا رخ بدل سکتے ہیں تو کیا پاکستان کے پاس ایسے لوگ موجود نہیں ہیں جو یہ سب کچھ کر سکتے ہیں، صرف انہیں پہچاننے اور ان پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان ایسے محب وطن لوگوں سے بھرا پڑا ہے، صرف انہیں آواز دینے کی ضرورت ہے۔ پھر دیکھیں قوم کی تقدیر بدلنے کے دن قریب آ سکتے ہیں، ورنہ ہر سال قوم آزادی ہو یا عیدین، ملک میں امن و امان، گرانی، توانائی کے بحران، غربت، بے روزگاری اور دیگر مسائل ایسے ہی رہیں گے۔ حکمران تقاریر کرتے رہیں گے اور عوام انہیں سنتے رہیں گے جو کہ زندہ دل لوگوں کے لئے اچھا نہیں ہوتا خدا کرے ایسا نہ ہو۔